فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
جائز کے دو درجے اور مداخلت فی الدین کا معیار جائز کے دو درجہ ہیں ایک محض مباح جس میں کوئی حیثیت دین اور طاعت کی نہیں جیسے امراض کا معالجہ اور اس کا ترک۔ دوسرا درجہ جس میں کوئی حیثیت دین اور اطاعت کی بھی ہے اور معیار اس کا یہ ہے کہ اس کی فضیلت اور ترغیب شریعت میں آئی ہو جیسے نکاح کہ اس کی تاکید وارد ہے اور اس کے ترک بلا عذر پر وعید بھی ہے، یہ صاف دلیل ہے اس کے دین ہونے کی اسی لیے فقہاء نے جو اقسام نکاح اور ان کے احکام لکھے ہیں ان میں کوئی درجہ مباح کا نہیں ، عارض کے سبب مکروہ ہوجاتا ہے مگر فی نفسہ طاعت ہی ہے پس نکاح کا کوئی نیا قانون بنانا مداخلت فی الدین ہے، اور معالجہ کا قانون بنانا مداخلت فی الدین نہیں ہے۔۱؎ایک اہم قاعدہ اور مداخلت فی الدین کا مطلب شرعی فقہی قاعدہ ہے کہ جو عمل اطلاق کے درجہ میں جس شان کے ساتھ موصوف ہوتا ہے وہ جس قید جائز کے ساتھ بھی صادر ہوگا، اسی شان کے ساتھ موصوف رہے گا، مثلاً ظہر کی نماز فرض ہے اور خاص اس کی یہ قید کہ دو ہی بجے کے وقت ہو فرض نہیں لیکن اگر دو ہی بجے پڑھی گئی تو اس کو بھی فرض کہیں گے اگر کوئی ایسا قانون بنا دیا جائے کہ دو بجے پڑھنا جائز نہیں تو وہ یقیناً مداخلت فی الدین ہے، اسی طرح جب مطلق نکاح دین ہے تو اگر صغر سن کی حالت سے پایا جائے تو اس فرد کو بھی دین کہیں گے، تو اس کی ممانعت کا قانون بنانا مداخلت فی الدین ہوگی اور اسی طرح قربانی میں کہیں گے کہ قربانی عبادت ہے اگر بقید بقرہ ہو (گائے ہو )تب بھی عبادت ہے تو اس کی ممانعت مداخلت فی الدین ہوگی خوب سمجھ لیا جائے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎افادات اشرفیہ درمسائل سیاسیہ ص ۱۴ ۲؎امداد الفتاوی ۲؍۲۷۰ ۲؎