فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مذہب میں یہ قاعدہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ اگر کسی کام میں مفسدہ اور مصلحت دونوں جمع ہوں تو ترجیح مفسدہ کو ہوگی بشرطیکہ اس مصلحت کا حاصل کرنا واجب نہ ہو، بس اسی بناء پر ہم ان رسموں کو منع ہی کریں گے، (مثلاً برأت وغیرہ) اب اس کا بھی جواب ہوگیا کہ اس میں مصلحتیں ہیں ، کیونکہ جہاں مصلحتیں ہیں وہاں مفسدے بھی تو موجود ہیں ۔۱؎مخلص مالداروں اور دینداروں کو اس کی اجازت کیوں نہیں ؟ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کی نیت میں نہ فخر ہے نہ تکبر ہے، نہ شہرت نہ کوئی اور خرابی، بالکل پاک وصاف ہیں ، وہ البتہ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب ہمارے فعل میں (یعنی ہم جو شادی کرتے ہیں اس میں ) تو مصلحتیں ہی مصلحتیں ہیں ، مفاسد ہیں ہی نہیں ، سب مصلحت ہی مصلحت ہے، مفسدہ بالکل نہیں اللہ گواہ ہے ہماری نیت نہ تفاخر کی ہے نہ ریاکی، ہماری نیت میں کوئی خرابی نہیں ، ہماری نیت تو بالکل پاک وصاف ہے۔ سواگر کوئی ایسا دعوی کرے تو ہم اس کو جھوٹا نہیں کہتے، ممکن ہے کسی کی نیت ایسی پاک وصاف ہو اور اسراف (فضول خرچی) کا جو مفسدہ تھا اس کا وہ یہ جواب دے سکتے ہیں کہ ہمیں ماشاء اللہ خدا نے اتنا دیا ہے کہ ایسے ایسے خرچوں سے ہمیں رائی برابر بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا (لیکن) اول تو اس کا تسلیم ہی کرنا مشکل ہے کہ نقصان نہیں پہنچتا، میں اگر انکار کرنے پر آجاؤں تو کہہ سکتا ہوں کہ قرض ہو ہی جاتا ہے ، اور میں واقعات سے ثابت کرسکتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر بڑے بڑے لوگ بھی مقروض ہوجاتے ہیں ، کیونکہ ہر شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر ہی ان شادیوں میں خرچ کیا کرتا ہے، مگر خیر میں اس کو بھی مانتا ہوں کہ اسراف نہیں ہوتا، بلاضرورت میں کیوں اس بحث میں پڑوں مگر جوبات کہنے کی ہے وہ تو ضرور کہی جائے گی، کیا میں حقائق (اور شرعی احکام) کو بھی ظاہر نہ کروں ؟ ------------------------------ ۱؎ نقد اللبیب ص ۵۸۹