فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
بہت ناراض ہوئے کہ تم سرکار کے مخالفوں کی ٹوپی اوڑھ کرکیوں آئے ہو ان کو گرفتارکرلیا گیا، میں تو کہا کرتا ہوں کہ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُم کا مسئلہ عقلی بھی ہے۔۱؎ دیکھئے اگر اس وقت زمانہ حرب میں کوئی جرمنی لباس پہنے یا بلا ضرورت جرمنی زبان بولے تو حکام کو کیسا ناگوار ہو، جب تشبہ کوئی چیز نہیں تو یہ ناگواری کیوں ہوتی ہے۔۲؎ پھر شریعت پر کیا اعتراض ہے اگروہ منکرین ومخالفین کی مشابہت سے منع کرتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کی بھی اجازت نہیں دی جن کو کفار استعمال کرتے تھے۔۳؎تشبہ کی تعریف اور رفع تشبہ کی پہچان اس کا معیار یہ ہے کہ جہاں کوئی بات کسی کی وضع ہو اور یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ بات کفار میں ہے اور کفار کی خصوصیت کی طرف ذہن جاتا ہو تو تشبہ ہوگا ورنہ نہیں ۔۴؎تشبہ کے اقسام و احکام (۱ ) تشبہ بالکفار اعتقادات وعبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے، جیسا کہ نصاری کی طرح سینہ پرصلیب لٹکانا اور ہنود کی طرح زُناَّر باندھنا ایسا تشبہ بلاشبہ حرام ہے۔ تشبہ بالکفار امور مذہبیہ میں حرام ہے جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں ان کا اختیار کرنا کفر ہوگا جیسے صلیب لٹکانا، سر پر چوٹی رکھنا ’’یا جے‘‘ پکارنا۔ (۲) معاشرت اورعبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے مثلاً کسی قوم کا وہ مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص انہی کی طرف منسوب ہو، اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے جیسے نصرانی ٹوپی اور ہندوانہ دھوتی، یہ سب ناجائز اور ممنوع ہے اور تشبہ میں داخل ہے۔ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ص ۲۴۴ ۲؎ الافاضات ۲؍ ۴۷۳ ۳؎ الافاضات ۴؍ ۴۷۳ ۴؎حسن العزیز ۳؍ ۲۱۳