فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مباح کا حکم اور اس کی دو صورتیں مباحات کو اکثر لوگ مامور بہ سے خارج سمجھتے ہیں کیونکہ ظاہر میں وہ ماموربہ فعلاً یا ترکاً نہیں ہیں مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری قسم بھی پہلی دوقسموں میں داخل ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اپنے اثر کے لحاظ سے مباحات دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ دین کے لئے نافع ہیں جیسے بغرض حفظ صحت چلنا، پھرنا ورزش کرنا، یا نافع نہیں ، اگر دین میں نافع ہے تو وہ فعلاً مامور بہ ہے گو درجہ وجوب میں نہ ہو مگر جب مباح نافع فی الدین کو اچھی نیت سے کیا جائے تو وہ مستحب ضرور ہوجاتا ہے اور اس میں ثواب بھی ملتا ہے۔ یا وہ دین میں نافع نہیں تو فضول ہے اورفضولیات کا ترک کردینا مامور بہ شرعاً ہے چنانچہ حدیث میں ہے، من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ، اسلام کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ لایعنی کو ترک کردیا جائے، جب فضولیات کے ترک کو حسن اسلام میں دخل ہے اورحسنِ اسلام مامور بہ اور مطلوب ہے تو ان فضولیات کا ترک بھی مامور بہ ہوگیا گو ان کو حرام نہ کہا جائے مگر کراہت سے خالی نہیں ۔۱؎بناء احکام کے اعتبار سے مباح کی دو قسمیں اور مباح الاصل ومباح بالضرورۃ کا فرق مباح شرعی اگر مباح الاصل ہو تو اس میں توسع کیا جاتا ہے مثلاً مہمان کو کھانے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس میں ہرطرح وسعت سے کھانے کی اجازت ہوتی ہے کہ یہ بھی کھاؤ اور یہ بھی کھاؤ، اور خوب کھاؤ، اورحلت اموال اسی نوع سے ہے۔ ------------------------------ ۱؎ وعظ ما علیہ الصبرملحقہ التبلیغ ۱۷؍ ۱۵۰