فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
یقینی علم رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ اس قاعدہ کو مان لیں کہ جائز طریقہ اور ذریعہ نسبت کا ہوتے ہوئے کسی کی طرف بدگمانی جائز نہیں اور بشرط امکان نسبت باپ ہی کی طرف کی جائے گی، اور اس صورت کا امکان ثابت ہے، مثلا استخدام جن (یعنی جنات کے واسطہ سے) ایسا ہوسکتا ہے یعنی جن کسی کے تابع ہوں اور اس نے عورت کو وہاں پہنچا دیا، یا مرد کو یہاں لے آیا، یعنی عورت کو مرد کے پاس پہنچادیا، یا مرد کو عورت کے پاس پہنچادیا اور حمل ہوگیا اور بچہ ہوا، جنوں کا وجود ثابت ہے اور (اس طرح کے تصرفات بھی ثابت ہیں ) یہ صورت بعید سہی مگر امکان کے درجہ میں ضرور ہے۔ غرض نسب کے بارے میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ جائز ذریعہ ہوتے ہوئے اس کو باپ کے ساتھ ملحق کرنا چاہئے خواہ حقیقت میں کچھ بھی ہو، اب اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اس کے معنی کیا ہیں کہ وہ بچہ جس کا باپ عرصہ سے غائب ہے اسی کاباپ ہے ، وہ معنی یہی ہیں کہ قانون میں اس کابیٹا ہے گو حقیقت میں کچھ بھی معلوم نہیں ، اور یہی مطلب ہے الولد للفراش کا، لیجئے عقلاً بھی ثابت ہوگیا کہ شرعی اصول کس قدر صحیح ہیں ، شریعت کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، ذرا سوچ سمجھ کر بات کہنی چاہئے، اب تو معترض صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے ہوں گے کیونکہ اس شبہ سے تو اپنے ہی نسب میں کلام ہوگیا۔۱؎قانون شریعت ہمارے لئے رحمت ونعمت ہے شریعت کا قانون ہمارے لئے کس قدر نعمت ہے اگر شریعت کا قانون نہ ہوتا تو زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا، مثلاً ہر شئی کے مالک حقیقی تو اللہ تعالی ہی ہیں مگر (شرعی قانون کے تحت) جس شئی کے متعلق فرمادیا کہ یہ تمہاری ہے تو برائے نام نہیں کیا بلکہ اس میں تصرف کا اختیار بھی دے دیا ہے خواہ اس شئی کو استعمال کرو یا کسی کو دے دو یا بیچ دو، ہمارے نزدیک سب معتبر ہے اگر تم کسی کو دے دوگے تو ہم بھی یہی کہیں گے کہ اب یہ شئی ------------------------------ ۱؎ الاسلام التحقیقی ملحقہ التبلیغ ۲۴؍ ۹۶-۹۸