فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
چاہئے جو مقیس علیہ کے بارہ میں ہے لیکن فقہاء کی احتیاط کو دیکھئے کہ باوجود اس کے بھی قیاس کو ظنی کہتے ہیں ، کیا معنی؟ کہ اس کا وہ درجہ نہیں جو مقیس علیہ کے حکم کا ہے حتی کہ اس کی تقلید بھی دوسرے مجتہد کو ضروری نہیں کہتے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اہل رائے کی کیا حالت ہے کہ اپنے طبع زاد اور خود تراشیدہ حکم کو ایسا یقینی سمجھتے ہیں کہ اس کے مقابلہ میں نص بھی کوئی چیز نہیں اور علماء سلف تک کو کہتے ہیں کہ انہوں نے نص کے معنی نہیں سمجھے، اس مضمون کی تحریریں موجود ہیں ، پھر کتنا فرق ہوا دونوں رایوں میں ، دیکھ لیجئے کہ یہ بات کس پر صادق آتی ہے کہ اس کو متبوع اور کافی سمجھا گیا اور وحی سے قطع نظر کی گئی۔۱؎فقہ کا اتباع رائے کا اتباع نہیں بلکہ وحی کا اتباع ہے (غورکیجئے ! یہ بات) آج کل کی اہل رائے پر صادق ہے یا فقہاء کی رائے پر جس کو قیاس کہتے ہیں دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک حق ہے ایک باطل بلکہ رائے بالمعنی الحقیقی کا لفظ بھی قیاس پر اطلاق کرنا صحیح نہیں تو قیاس کے اتباع کو اتباع رائے نہیں کہہ سکتے بلکہ قیاس منجملہ ادِلہ شرعیہ کے ایک دلیل ہے تو اس کا اتباع وحی ہی کا اتباع ہوا۔ یہ اس کا جواب ہوگیا کہ فقہ کا اتباع بھی رائے کا اتباع ہے جو مذموم ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ فقہ کا اتباع رائے کا اتباع نہیں بلکہ وحی کا اتباع ہے۔مخالفین فقہ کے ایک اشکال کا جواب بعض لوگ جو فقہ کے خلاف ہیں کہتے ہیں ایسے فن کا کیا اعتبار جس میں ہر قسم کی روایتیں موجود ہیں ، اور جس کے متبعین کی یہ حالت ہے کہ نہ قرآن سے بحث نہ حدیث سے جس کسی امام سے روایت مل جائے اور جب تک روایت نہ ملے اس وقت تک قرآن و حدیث سے ان کی تشفی نہیں ہوتی اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کون سا فن ہے ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص:۵۳