فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
(ایک صاحب نے جاکر )اعتراض کے طور پر لکھا کہ تم نے جو اوقات کا انضباط کیا ہے ، خیرالقرون میں یہ انضباط نہ تھا اس لئے یہ سب بدعت ہے۔ اگر بدعت کے یہ معنی ہیں جو ان حضرات نے سمجھے ہیں کہ جو چیز خیرالقرون میں نہ ہو تو بدعت ہے، تو خیرالقرون میں تو ان کا بھی وجود نہ تھا پس یہ بھی مجسم بدعت ہوئے ان بزرگ کو بدعت کی تعریف بھی معلوم نہیں ،یہ انضباط کسی کے اعتقاد میں عبادت تو نہیں ا س لئے ان کا خیر القرون میں نہ ہونا، اور اب ہونا بدعت کومستلزم نہیں ۔۱؎من حیث العبادہ ومن حیث الانتظام کا فرق امور انتظامہ میہ تبدّل زمانہ سے بدلتے رہتے ہیں ، جیسے پہلے زمانہ میں انتظامِ اوقات گھڑی گھنٹہ پر نہ تھا ،اور آج کل گھڑی گھنٹے پر مدار ہے ،پہلے سفر کا مدار گھوڑے بیل اونٹ پر تھا، آج کل ریل، موٹر ،ہوائی جہاز وغیرہ رائج ہوگئے ہیں یہ سب امورِ انتظامیہ ہیں ،جن میں تغیرتبدل حسب تبدلِ زمانہ(یعنی زمانہ کے بدلنے سے) ہوسکتا ہے ،ان کو بدعت نہ کہا جائے گا ،بدعت کہتے ہیں مقاصد شرعیہ کے بدلنے کو کہ غیر مقصود کو مقصود بنادے یا مقصود کو غیر مقصود بنادے، اور جو امور مقاصد شرعیہ سے نہیں ان میں ایسا تغیر کہ ایک کی جگہ دوسرے شئی کو اختیار کیا جائے اور کسی کو مقصود نہ سمجھا جائے جائز ہے خوب سمجھ لو۔۲؎ (کسی عمل کے)خیرالقرون میں ہونے کی ضرورت اس وقت ہے جب کہ اس فعل کو من حیث العبادت کیا جائے اور اگر من حیث الانتظام کیا جائے وہ بدعت نہیں ، ایک حدیث حیاۃ المسلمین میں شمائل ترمذی سے درج کی گئی ہے اس سے نقلاً بھی معمول نبوی کا انتظام معلوم ہوتا ہے یہ حدیث روح ہشتم میں ہے۔۳؎ ( اور وہ حدیث یہ ہے) حضرت حسین اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۲؍ ۱۲۵ ۲؎ الارتیاب والاغتیاب ملحقہ اصلاح اعمال ص۵۲۶ ۳؎ الافاضات ۱؍ ۱۳۴