فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
قیاس اور رائے کا فرق اور فقہاء مجتہدین واہل الرائے کا فرق یہاں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب رائے کی اس قدر مذمت ہے تو فقہ کے تو صدہا مسائل ایسے ہیں جن میں رائے کو دخل ہے جس کو قیاس کہتے ہیں ، زیادہ تر مسائل قیاس ہی سے ثابت ہیں تو فقہ بھی قابل مذمت ہوا؟ بات یہ ہے کہ جس رائے کو دخل دینے سے منع کیا جاتا ہے اور جس کی مذمت ہے وہ وہ ہے کہ وحی سے قطع نظر کرکے اس کو متبوع قرار دے لیا جاوے اور اس کو دین میں کافی سمجھا جائے، اور فقہاء کا قیاس اس طرح کا نہیں ہے، فقہ میں قیاس کے معنی یہ ہیں کہ ایک حکم کو منصوص سے غیر منصوص کی طرف باشتراک علت متعدی کرنا سو یہ حکم رائے کا نہیں ہے بلکہ نص کا حکم ہے۔ ہاں اس میں علت کا تلاش کرنا جس کی وجہ سے وہ حکم منصوص سے غیر منصوص کی طرف متعدی کیا گیا یہ اجتہاد سے ہوا، یہ حقیقت ہے قیاس کی۔ اس میں اور اس رائے میں جس کی مذمت کی جاتی ہے کئی طرح سے فرق ہے ایک یہ کہ اس سے اس وقت کام لیا جاتا ہے جب کسی چیز میں حکم منصوص موجود نہ ہو اور اگر کوئی نص خبر احاد کے درجہ میں بھی موجود ہو تو اس سے کام نہیں لیا جاتا نص ہی پر عمل کیا جاتا ہے، اور اہل رائے کی یہ حالت ہے کہ نص صریح اور قطعی میں بھی تاویل کرلیتے ہیں مگر رائے کو چھوڑنا نہیں چاہتے، تو اتباع رائے کا یہ ہوا نہ کہ وہ ۔ دوسرے یہ کہ فقہاء قیاس کو صرف مُظہر کہتے ہیں مُثبت نہیں کہتے، یعنی فقہاء کہتے ہیں کہ قیاس اس حکم کو ظاہر کرتا ہے جو چھپا ہوا تھا، اصل حکم نص کا ہے جو مقیس علیہ کے بارہ میں ظاہر تھا کیونکہ نص اس کے بارہ میں نازل ہی ہوئی ہے اور مقیس کے بار ہ میں ظاہر نہ تھا مگر در حقیقت ثابت تھا کیونکہ اس میں بھی علت حکم کی موجود تھی اس کو ان کے قیاس نے ظاہر کردیا، تو حکم در اصل نص کا ہے قیاس نے کوئی نیا حکم ایجاد نہیں کیا، اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ اس حکم کی وقعت اور اس کا درجہ مقیس کے بارہ میں بھی وہی ہونا