فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
نہیں نہ ان کے ترک میں کوئی گناہ ہے، عادات میں مزاج وغیرہ کے لحاظ کرنے کا اختیار ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض عادات ایسی ہیں جن کی ہم برداشت نہیں کرسکتے، اس لئے شریعت نے عادت نبویہ کا اتباع واجب نہیں کیا، ہاں اگر کسی کو ہمت ہو، اور عادات پر عمل کرنا بھی نصیب ہوجائے تو اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں مگر اس کو دوسروں پر طعن کرنے کا بھی حق نہیں ۔۱؎سنت عادت وسنت عبادت کے قابل ترک اور ناجائز ہونے کا ضابطہ سنن عادیہ (مثلاً) سادے کپڑے اور جو کی روٹی یا اس کی مثل جو سنن عادیہ میں سے ہیں اگرکہیں ان کی وجہ سے مقصود فوت ہونے لگتا ہے تو ان کو چھڑا دیا جاتا ہے کیونکہ سنن عادیہ کوئی مقصود نہیں ہیں ۔ بلکہ بعض موقعہ پر سنن عبادت تک چھڑا دی جاتی ہیں اگر ان سے ضرر ہوتا ہو مثلاً یہ سنت ہے کہ تہجد کی آٹھ رکعت پڑھے اب اگر کسی کو نیند زیادہ آتی ہے اور وہ تہجد کے واسطے زیادہ دیرتک جاگا اور پھر ایسا سویا کہ صبح کی جماعت فوت ہوگئی تو اس سے کہا جائے گا کہ تم دو رکعت پڑھ کر جلد سو رہو تاکہ صبح کی جماعت نہ جائے اگر چہ آٹھ رکعت سنن عبادت میں سے ہیں ، مگر جب اس سے بڑھ کر مقصود فوت ہوتا ہو تو اس کو چھڑا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کی بابت اس کے مجموعی حالات سے ثابت ہوجائے کہ حج کے راستہ میں اس سے نماز کی پابندی نہ ہوسکے گی تو اس کو حج نفل سے منع کیا جاتا ہے ، اگر کسی شخص کو ایک نماز کے بھی قضاء ہونے کا گمان غالب ہو تو اس کو حج ------------------------------ ۱؎ ترجیح الآخرۃ ملحقہ التبلیغ ۲۰؍ ۲۵۵،