فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
خوشی ہوئی کہ شاہ صاحب ؒ نے اس پر انکار نہیں فرمایا بلکہ اثبات فرمایا۔ (خلاصہ کلام یہ ہے کہ) جہاں کسی فعل پر کوئی وعید عموم الفاظ کے ساتھ وارد ہوگی یا کوئی حکم مرتب ہوگا، ا س کو عام ہی رکھا جائے گا مورد کے ساتھ خاص نہ کیا جائے گا، ورنہ چاہئے کہ لعان کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ ہوتا، کیونکہ اس کا نزول ایک خاص واقعہ میں ہوا ہے، مگرخود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس واقعہ کے بعد دوسرے واقعہ میں اسی حکم کو جاری کیا ہے اور خلفاء نے بھی ہمیشہ اس کو جاری رکھا ہے، اسی طرح یہاں (بلکہ ہر جگہ) رکھا جائے گا، گو نزول آیت کا خاص ہو مگر حکم خاص نہیں (کیونکہ ) شان نزول صرف محرکِ نزول ہوتا ہے مقصود اصلی (صرف) وہی نہیں ہوتا۔۱؎المطلق اذا اطلق یرادبہٖ الفرد الکامل یہ قاعدہ شرعیہ ہے کہ المطلق اذا اطلق یرادبہٖ الفرد الکامل(اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن پاک میں واولٰئک من الصالحین میں ) صالحین کے آگے کوئی قید نہیں ہے تو ہم اس صالحین سے انہیں لوگوں کو مراد لیتے ہیں جو اس کے فرد کامل ہیں تو آیت واولٰئک من الصالحین کے معنی یہ ہوئے کہ اس جماعت کا شمار ان صالحین میں ہوگا جو اعلیٰ درجہ کے صالحین ہیں ۔ صالحین ایک مفہوم ہے ،جو ادنیٰ درجہ والوں پر بھی بولاجاسکتا ہے اوراعلیٰ درجہ والوں پر بھی ،اس کے بعض افراد وہ بھی ہیں جو مومنین کے ادنیٰ درجہ میں ہیں اور وہ بھی ہیں جو اعلیٰ درجہ میں ہیں ،(لیکن )جب اولٰئک من الصالحین میں صالحین کو مطلق رکھاہے توہم بقاعدہ المطلق اذا اطلق یراد بہٖ الفرد الکامل اعلیٰ درجہ ہی کیوں نہ مراد لیں ۔ ------------------------------ ۱؎ فناء النفوس ملحقہ تسلیم ورضا ص ۲۲۹