فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
عموم بلویٰ اور ضرورت عامہ کی بناء پر توسع فی المسائل کے حدود (۱) میرا ارادہ تھا کہ ایک رسالہ احکام معاملات میں ایسا لکھوں کہ جن معاملات میں عوام مبتلا ہیں اگر وہ صورتیں کسی مذہب میں بھی جائز ہوں تو اس کی اجازت دے دوں تاکہ مسلمانوں کا فعل کسی طرح سے تو صحیح ہوسکے۔ میں نے احتیاطاً اس کے بارے میں حضرت مولانا گنگوہیؒ سے بھی دریافت کیا کہ ایسے مسائل میں دوسرے مذہب پر فتوی دینا جائز ہے یا نہیں ؟ تو حضرت نے بھی اجازت دے دی مولانا بہت پختہ حنفی تھے۔ او ر یہ توسع معاملات میں کیا گیا دیانات میں نہیں اس میں کچھ اضرار نہیں ، اسی لئے جمعہ فی القری میں ابتلاء عوام کے سبب ایسا تو سع نہیں کیا، البتہ اگر حضرت امام شافعی کے قول پر احتیاط ہوتی تو فتویٰ دے دیتا مگر احتیاط مذہب حنفی میں ہے کیونکہ جس مقام کے مصر اور قریہ ہونے میں اختلاف ہو، اگر وہ مصر ہی ہو اور اس میں کوئی ظہر پڑھے تو فرض ذمہ سے ساقط ہوجائے گا گو کراہت ہوگی اوراگر وہ قریہ ہے اور وہاں جمعہ پڑھا تو جمعہ بھی نہ ہوا اور ظہر بھی ساقط نہ ہوئی، اس لئے ایسے مقام میں احتیاط ترک جمعہ ہی میں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابتلاء بھی بدرجہ اضطرار نہیں کیونکہ لوگ چھوڑ سکتے ہیں اگر جمعہ نہ پڑھا تو کوئی تکلیف نہ ہوگی بلکہ اور زیادہ آرام ہوگا، اذان زائد نہیں خطبہ نہیں ۔۱؎ (۲) فرمایا دیانات میں تو نہیں لیکن معاملات میں جس میں ابتلاء عام ہوتا ہے دوسرے امام کے قول پر اگر جواز کی گنجائش ہوتی ہے تو اس پر فتوی رفع حرج کے لئے دیتا ہوں ۔۲؎ (۳) اس لئے مختلف فیہ مسائل میں وسعت دینی چاہئے اس طرح ایک تو شریعت سے محبت ہوگی، دوسرے آرام رہے گا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص ۷۱ ۲؎ اشرف المعمولات ص ۳۳ ۳؎ انفاس عیسی۲؍ ۳۴۴