فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
’’ المعروف کا المشروط ‘‘ کی ایک مثال ایک بدعت تراویح میں استیجار علی العبادۃ (عبادت پر اجرت لینے )کی ہے ،یعنی حافظ صاحب سے اجرت دے کر قرآن پڑھوایا جاتا ہے اور استیجار علی العبادۃ (یعنی عبادت پر اجرت لینا )حرام ہے ،بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اجرت نہیں کیونکہ ہم کوئی مقدار مقرر نہیں کرتے جو ہمارے مقدر میں پہونچتا ہے وہ لے لیتے ہیں ، سبحان اللہ،’’المعروف کالمشروط‘‘ جو بات مشہور ہوتی ہے اس میں ٹھہرانے کی کیاضرورت ہوتی ہے (مشہور توخودہی مشروط ہوتا ہے)اگر کسی طرح حافظ صاحب کو معلوم ہوجائے کہ یہاں سنانے میں کچھ بھی نہ ملے گا تودرمیان رمضان ہی میں حافظ صاحب چھوڑکر بیٹھ رہیں گے ، اس سے ثابت ہوا کہ حافظ صاحب کو مقصود اجرت ہی ہے ،ختم کرنے سے بحث نہیں ۔۱؎ (دوسری مثال)سوال (۱۱۷):حضور!یہاں ایک اصول (اور معمول) ہے جس پر مجھ کو سود ہونے کا شبہ ہوتا ہے ، بلکہ یہاں ایک مولوی صاحب سے دریافت بھی کیا،لیکن انہوں نے فرمایا کہ سود تونہیں ہے لیکن بیع کے خلاف ہے ،ان کے فرمانے سے میری طبیعت کو اطمینان نہیں ہوا، وہ اصول (ومعمول)یہ ہے کہ مثلاً سوروپئے کا مال فروخت کیا پندرہ یوم کی میعاد پر ،یعنی سوروپئے کا مال پندرہ یوم کے لئے قرض دیا، اب اگرلینے والا پندرہ ہی یوم میں دے گا تواس کو دوروپئے دیں گے کٹوتی کے،اگراس نے پندرہ یوم میں نہ دیئے ایک ماہ میں دئیے تو اس کو بجائے دوروپئے کے ایک روپیہ دیں گے ، اگر اس نے ایک ماہ میں بھی نہ دیئے تو اس کو نہیں دیتے، الغرض دوروپئے سیکڑہ کٹوتی ہے پندرہ یوم تک؟ الجواب:(المعروف کاالمشروط) عرف کے سبب یہ شرط ہے ،اور فاسد ہے اور شرط فاسد سے بیع فاسد ہوجاتی ہے اور بیع فاسد بتصریح فقہا ء ربوایعنی معاملہ سود میں داخل ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ تطہیر رمضان ملحقہ برکات رمضان ص۲۹ ۲؎ امدادالفتاویٰ ج سوم ص۹۳