فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اسی (۸۰) برس تو بیماری پر گذرنے دو جتنے دنوں ہم نے راحت سے زندگی بسر کی ہے ابھی کیا جلدی ہے ، اس وقت آپ پر اس حالت کا غلبہ تھا کہ حق تعالی میرا صبر دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے پورا صبر کیا حتی کہ (صحت کی) دعا بھی نہ کی ، حالانکہ دعا صبر کے منافی نہ تھی مگر صورۃً اس میں بیماری سے ناگواری اور ضجر کا اظہار ہے اس لئے دعا نہ کی پھر جب منکشف ہوا کہ اب حق تعالی شان عبدیت کا اظہار چاہتے ہیں تو فوراً دعا کرنے لگے: رَبِّ إِنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَعَذَاب اور اس مصیبت کو شیطان کی طرف منسوب کرنے لگے۔۱؎اسوۂ نبی ﷺ کی دوصورتیں ، قولی وعملی قرآن پاک میں ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ أسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، جس کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کی ذات مبارک میں ایک اچھا نمونہ دیا ہے، نمونہ دینے سے کیا غرض ہوتی ہے یہی کہ اس کے موافق دوسری چیز تیار ہوپھر لطفِ خداوندی یہ ہے کہ اس نمونہ میں بھی کچھ تنگی نہ تھی، دو قسم کا نمونہ دیا گیا تھا، فعلی اور قولی اور یہ محض رحمت ہے کہ اتنی وسعت کردی کہ کچھ بھی دقت باقی نہ رہے۔ اشکال: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نمونے ہم کو دکھائے ہیں ہم کو بالکل ان پر کار بند ہونا چاہئے مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر جَو کھایا ہے اور دنیا میں بہت تنگی کے ساتھ گزر کی، نہ رنگ برنگ کھانے کھائے، نہ مکان سجائے، نہ درہم نہ دینار رکھے اور ہم نہ جَو کھاتے ہیں نہ کسی قسم کی تنگی کرتے ہیں کپڑا بھی اچھا پہنتے ہیں مکان میں بھی تکلف کرتے ہیں ، روپے پیسے بھی جمع رکھتے ہیں ، اور ان سب باتوں کو علماء جائز کہتے ہیں تو یہ نمونہ کی تطبیق نہ ہوئی۔ جواب: جواب یہ ہے کہ نمونہ دو قسم کا دیا گیا ہے قولی وفعلی، فعلی تو ایک خاص ------------------------------ ۱؎ التبلیغ ۱۷؍۲۵۴- ۳۵۳