فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
میں کہتا ہوں کہ اس میں بھی کسی درجہ میں احتمال نکالا جا سکتا ہے کہ رجسٹرار نے کوئی کثیر رقم (رشوت) لے کر مہر لگادی ہو، ا ب شاید کسی کو خیال ہو کہ اس پر تو شہادتیں موجود ہیں میں کہتا ہوں کہ جیسے (فرضی )بیع نامہ بن سکتا ہے، شہادتیں بھی (فرضی) بن سکتی ہیں ، غرض احتمال کی بڑی گنجائش ہے، دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جس کے ثبوت میں کوئی قریب یا بعید احتمال نہ نکالا جاسکے، سو اگر واقعیت پر نظر رکھی جائے تو تمام کام بند ہوجائیں گے، لامحالہ قانون ہی کو اختیار کرنا پڑے گا۔۱؎احکام فقہیہ قوانین شرعیہ ہیں فقہ کے بہت سے احکام کا یہی مبنیٰ (بنیاد) ہے کہ بسا اوقات ضابطہ کے درجہ میں ایک حکم کو ثابت مانا جاتا ہے خواہ واقع میں کچھ بھی ہو، مثلاًدو عادل آدمی گواہی دیں کہ ہم نے ۲۹؍ کو چاند دیکھا ہے تو اب رمضان یا عید کو ثابت مانا جائے گا(جب کہ ساری شرطیں پائی جائیں ) اگر چہ انہوں نے جھوٹی ہی گواہی دی ہو۔ اسی طرح بسااوقات ایک حکم کو منفی مانا جاتا ہے خواہ واقع میں وہ ثابت ہی ہو، مثلا ایک شخص کا ایک بچہ ہونے پر تہمت لگانے سے لعان ہوا تو اس بچہ کے نسب کی اس شخص سے نفی کی جائے گی، خواہ وہ بچہ واقع میں اسی کا ہو، اس کی سینکڑوں نظیریں موجود ہیں ۔ مثلاً کسی عورت کے بچہ پیدا ہوا اور اس کا شوہر مدت سے غائب ہے تو اس بچہ کو ولدالحرام نہ کہاجائے گا، جب تک کہ اس کا شوہر انکار نہ کردے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے، صرف انکار ہی نہیں بلکہ لعان ہوگا …… اور اگر اس نے لعان کو منظور نہ کیا تو انکار کے باوجود اسی کا کہا جائے گا ، اور قاضی اس انکار کو نہیں مانے گا اور بچہ کو مجہول النسب حرامی نہ کہا جائے گا اور نسب کے تمام احکام جیسے، میراث وغیرہ سب کو جاری کرے گا، غرض جب تک لعان نہ ہو اس وقت تک نسب ثابت رہے گا خواہ شوہر حاضر ------------------------------ ۱؎ الاسلام التحقیقی التبلیغ ۲۴؍ ۱۰۰