فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
احکام مُعَنْوَنْ سے متعلق ہوتے ہیں نہ کہ عنوان سے حکم شرعی کا محل اور متعَلَّق ہمیشہ معنون ہوتا ہے نہ کہ عنوان، مثلاً کوئی شخص مغصوب زمین پر مسجد بنالے اور مالک زمین قاضی کے اجلاس میں اس کا مغصوب ہونا ثابت کردے اور قاضی غاصب کو اس مسجد کے انہدام (گرانے) اور زمین کی واپسی کا حکم دے دے، تو قاضی پر یہ اعتراض جائز نہ ہوگا کہ اس نے مسجد منہدم کرادی، (کیونکہ) مسجد محض اس کا نام ہے واقع میں وہ مسجد ہی نہیں ۔۱؎احکام کا دارو مدار آثار پر ہوتا ہے نہ کہ محض اسباب پر لوگ اسباب کو دیکھتے ہیں (اصل) اسباب کا دیکھنا نہیں بلکہ آثار کا دیکھنا ہے جیسے اگر کوئی مجلداور ضخیم قرآن شریف سے کسی کو ہلاک کردے کیا یہ جائز ہوجائے گا؟ (اسی طرح سمجھئے کہ) اگر قرآن شریف (یا نظم وغیرہ) سن کر نفسیاتی کیفیت پیدا ہو وہ محمود نہ ہوگی، مثلاً کسی امرد سے قرآن شریف سنا اس کی آواز یا صورت سے قلب میں ایک کیفیت پیداہوئی تو یہاں اسباب (یعنی قرآن شریف پڑھنے کو)نہ دیکھیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ کیفیت یقیناً نفسانی ہوگی، اس صورت میں قرآن یا نظم سننا ناجائز ہوگا۔۲؎کسی امر کا جائز یا ناجائز ہونا محض اس کے نافع ہونے پر نہیں میں نے کہا خمر بھی تو نافع ہے میسر (جوا) بھی نافع ہے، بلکہ ان کا نافع ہونا تونص سے ثابت ہے اگر نافع ہونے پر مدار ہے تو ان چیزوں میں بھی کوئی جرم نہ ہونا چاہئے۔۳؎ تتمہ: جس عمل نافع میں نہ دنیوی ضرر ہو جس سے شرعاً معذور سمجھا جاتا ہے نہ دینی ضرر اس میں تقاعد کرنا (حصہ نہ لینا) خلاف حمیت ہے جیسے چندہ۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ افادات اشرفیہ ص ۶ ۲؎ افادات اشرفیہ ص ۶ ۳؎ الافاضات الیومیہ ۲؍ ۲۶۰ ۴؎ الافاضات ص ۱۸