فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اس صورت میں کوئی وجہ نہیں بدعت ہونے کی۔۱؎تتمہ: وجوبِ ترک کے لئے صرف قبیح بالذات شرط نہیں ، بلکہ قبیح بالغیر کافی ہے، اسی وجہ سے فقہاء کرام نے بہت مواقع میں بعض مباحات کو سداً للذرائع تاکید سے روکا ہے۔۲؎واجب کا مقدمہ واجب اور حرام کا مقدمہ حرام ہوتا ہے قاعدہ مقررہ ہے کہ جو امر جائز کسی امر مستحسن یا واجب کا مقدمہ وموقوف علیہ ہو وہ بھی مستحسن یا واجب ہوجاتا ہے، اسی بناء پر ہمارے علماء متکلمین نے یونانی فلسفہ کو حاصل کیا اور علم کلام بطرز معقول مدون فرمایا۔۳؎ (دلیل مع مثال)اور یہ قاعدہ کہ ’’مقدمہ واجب کا واجب ہوتاہے‘‘ ہرچند کہ بدیہی اور سب اہل عدل اور اہل عقل کے مسلمات سے ہے محتاج اثبات نہیں مگر تبرعاً ایک حدیث سے تائید بھی کی جاتی ہے، عن عقبۃ قَالَ سَمِعْتُ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وَسلَّم یَقُوْلُ من عَلم الرّمی ثم ترکَہ فَلَیْسَ مِنَّا۔۴؎ ظاہر ہے کہ تیر اندازی کوئی عبادت مقصود فی الدین نہیں مگر چونکہ بوقت حاجت ایک واجب یعنی اعلاء کلمۃ اللہ کا مقدمہ ہے، اس لئے اس کے ترک پر وعید فرمائی اس سے ثابت ہوا کہ مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے۔۵؎ (۲)جس چیز کو حرام یاجرم قراردیاجاتا ہے جتنے افعال یاامور اس حرام یاجرم کے وسائل اور ذرائع ہوں بوجہ اعانت جرم کے وہ بھی حرام اور جرم ہوجاتے ہیں ، گوخصوصیت کے ساتھ ان افعال یاامور کو نام بنام جرم نہ شمارکیاگیاہو،مثلاًاستحصال بالجبر(یعنی زبردستی کسی کا مال وغیرہ لینا)جرم ہے توجتنی صورتیں اس جبر کی ہوں گی مثلاً ڈرانا،دھمکانا،کوٹھری میں بندکردینا وغیرہ وغیرہ سب جرم ہوں گے، گویہ سب امورجداجدا ------------------------------ ۱؎ بوادرالنوادر ص۹۲۲رسالہ اعداد الجنۃ ۲؎ امداد الفتاوی ۴؍ ۷۲ ۳؎ امداد الفتاوی ص ۷۲ ج ۴ ۴؎ مشکوۃ شریف ص ۲۳۸ ۱۵؎ الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد ص ۴۹ ۶؎