فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
سوسنئے! میں نے مانا کہ آپ اپنی نیک نیتی کی بناء پر اس قاعدہ سے ایک درجہ میں بچ گئے کہ جہاں مفسدہ اور مصلحت دونوں جمع ہوجائیں وہاں ترجیح مفسدہ کو ہوتی ہے، خیرا س قاعدے سے تو آپ جیسے تیسے بچ گئے، لیکن حضرات ابھی پیچھا نہیں چھوٹا، اب ایک اور قاعدہ بھی موجود ہے، اور وہ بھی ہماری شریعت ہی کے اصول میں سے ہے اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ہمارے جس جائز عمل سے دوسروں کو دینی نقصان پہنچتا ہو ہمارے لیے بھی وہ عمل ناجائز ہوجائے گا شرعی قاعدہ ہے کہ ہمارے جس مباح (جائز) عمل سے کسی دوسرے مسلمان کو دین کا نقصان پہنچے تو ہمارے لئے بھی وہ عمل مباح (جائز) نہ رہے گا، حتی کہ اگر کسی مندوب ومستحب فعل سے بھی کسی مسلمان کے اعتقاد یا عمل میں کوئی خرابی پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس مستحب عمل کو ترک کردیا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے بعض احادیث پر عمل کو ترک کرادیا۔ مثلاً حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اورسورۂ دہر پڑھنے کی، اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا، چنانچہ شافعیہ اب بھی پڑھتے ہیں ، اب تک ان کا یہی معمول ہے۔ اور امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ اس کا التزام (یعنی اس کی پابندی کرنا) مناسب نہیں ، دیکھئے حدیث شریف میں وارد ہے، مگر امام صاحب اس کو منع کرتے ہیں ۔ اصل میں امام صاحب کے اس قول کا حاصل یہ ہے کہ یہ عمل واجب تو ہے نہیں محض مستحب ہے، اور اس مستحب سے دوسروں کے واسطے ایک خرابی پیدا ہوجاتی ہے ، اب یہاں اپنا اپنا تجربہ اور اپنا اپنا مشاہدہ ہے نہ ایک کو دوسرے کا رد چاہئے نہ