فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مثال سے وضاحت اس کی ایسی مثال سمجھ لوکہ جنتری سے اگر ۲۹؍ کا چاند ثابت ہوا، خواہ وہ اپنے قاعدہ میں صحیح ہی ہومگر شریعت نے اس کو حجت نہیں قرار دیا، کوئی بیٹا اپنے باپ کے معاملہ میں گواہی دے جس میں باپ کا نفع ہوگو وہ بیٹا کتنا ہی بڑا متقی اورسچا ہو مگر اس گواہی میں اس کے قول کو حجت نہیں قرار دیاگیا، گو اسی اجلاس پر اگر دوسرے شخص کے معاملہ میں وہ شہادت دے تو فوراً قبول کرلی جائے گی۔ یا مثلاً اہل سلطنت (وحکومت) نے باوجودیکہ تار کو بعض امور میں حجت ٹھہرایاہے لیکن اگر کوئی شخص عدالت میں اپنی شہادت تار کے ذریعہ بھیج دے گو پورا یقین ہو کہ اسی شخص کا تار ہے مگرقبول نہ کیا جائے گا۔ آخر شریعت ایک قانون ہے کیا اس کو حق نہیں کہ جن دفعات کو اپنے محکومین کے لئے قرین حکمت سمجھے تجویز کردے باقی یہ اس کے ذمہ نہیں کہ ان حکمتوں کا سبق بھی سب کے سامنے دہرایا کرے، کیونکہ اصل مقصود عمل ہے وہ ان حکمتوں کے ظہور پر موقوف نہیں ۔۱؎قانون کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا واقعی قانون بڑی چیز ہے اگر ہربات میں واقعیت (اور حقیقت) پر نظر رکھی جائے تو دنیا کا کام چل ہی نہیں سکتا کسی کو کسی مال کا مالک کہاجاتا ہے تو کیا اس پر کوئی ایسی دلیل ملتی ہے جس میں جانب مخالف (یعنی دوسرا) احتمال ہی نہ ہو، بہت سے بہت یہ کہ مثلاً جائداد کی تحریر یعنی بیع نامہ (رجسٹری) موجود ہے مگر کیا اس میں کسی درجہ میں یہ احتمال نہیں ہے کہ فرضی اور جعلی ہو، ایسے واقعات تو بہت ہوتے ہیں ، شاید کوئی کہے کہ رجسٹری شدہ ہے اور سرکاری مہراس پر موجود ہے (پھر کیا شبہ) ------------------------------ ۱؎ اصلاح انقلاب ۲؍ ۲۲۷