فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
عہد صحابہ وتابعین میں بھی وہ سبب موجود تھا ) مثلاً مروجہ میلاد کی مجلسیں ، تیجہ دسواں ، چہلم وغیرہ بدعات کہ ان کا سبب قدیم ہے، مثلاً مجلس میلاد کے منعقد کرنے کا سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ پر خوشی ہے اور یہ سبب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہؓ نے مجلسیں منعقد نہیں کی، کیا نعوذ باﷲ صحابہ کا فہم یہاں تک نہیں پہنچا تھا اگر اس کا سبب اس وقت نہ ہوتا تو البتہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ان کا منشاء موجود نہ تھا، لیکن جب اس کا باعث اور سبب اور اس کی بنیاد موجود تھی پھر کیا وجہ ہے کہ نہ حضور نے کبھی میلاد کی مجلس منعقد کی، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے، ایسی شئی کا حکم یہ ہے کہ وہ صورۃً بھی بدعت ہیں اور معنیً بھی۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے سنت اور بدعت کے پہچاننے کا اس سے تمام جزئیات (اور اختلافی مسائل) کا حکم مستنبط ہوسکتا ہے، اور ان دونوں قسموں میں ایک عجیب فرق ہے، وہ یہ کہ پہلی قسم کی تجویز کرنے والے خواص یعنی علماء ہوتے ہیں ، اور اس میں عوام تصرف نہیں کرتے، اور دوسری قسم کی تجویز کرنے والے عوام ہوتے ہیں اور وہی اس میں ہمیشہ تصرف کرتے ہیں چنانچہ میلاد شریف کی مجلس کو ایک بادشاہ نے ایجاد کیا ہے اس کا شمار بھی عوام ہی میں سے ہے، اور عوام ہی اب تک اس میں تصرف کر رہے ہیں ۔۱؎بدعت کی پہچان بدعت کی ایک پہچان بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو بات قرآن وحدیث اجماع، قیاس چاروں میں سے ایک سے بھی ثابت نہ ہو اور اس کو دین سمجھ کر کیا جائے وہ بدعت ہے، اس کی پہچان کے بعد دیکھ لیجئے ۔۔۔ عرس کرنا ، فاتحہ دلانا، تخصیص و تعیین کو ضروری سمجھ کر ایصال ثواب کرنا وغیرہ وغیرہ (اور مثلاً بارہ ربیع الاول کی رسمیں ، عید میلادالنبی وغیرہ) جتنے اعمال ہیں کسی اصل سے ثابت نہیں ہیں ، اور ان کو دین سمجھ کر کیا جاتا ہے یا نہیں ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ السرور ص ۱۶۴ ملحقہ مجمع البحور ۲؎ تقویم الزیغ ص ۲۹ اشرف الجواب ۲؍ ۲۸