فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
کفّ عبادت ہے نہ کہ ترک، گو نعمت ہے (روزہ کے علاوہ) اور عبادات میں تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی حقیقت وجودی ہے اور روزہ میں کچھ نہیں کرنا پڑتا کیوں کہ اس کی حقیقت عدمی ہے کہ اس میں صرف بعض اشیاء کا ترک کرناہے۔ مگریہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مطلق ترک کو عبادت نہ سمجھا جائے اور نہ ہمارا یہ مقصود ہے بلکہ جس ترک کے ساتھ قصد متعلق ہو جس کو فقہاء ’’کفّ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں وہی عبادت ہے اور ترک اصلی جو عدمی محض ہے وہ عبادت نہیں ہے ورنہ ہر ساعت میں ہر شخص بے انتہا حسنات کا فاعل ہوگا، کیونکہ ہر آن وہر ساعت میں انسان عمل تو ایک ہی کرسکتا ہے اور اس کے سوا تمام افعال کا تارک ہی ہوتا ہے تو پھر چاہئے کہ وزن اعمال کی ضرورت ہی نہ رہے کیونکہ ہر حال میں مؤمن کے لئے تو غلبۂ حسنات ہی ہوا کرے گا، اوریہ لازم خلاف نصوص ہے، نصوص سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن بعض مسلمانوں کے حسنات غالب ہوں گے اوربعض کے سیآت اور بعض کے حسنات وسیآت مساوی ہوں گے اور ترک اصلی کے عبادت ماننے پر ان صورتوں کا تحقق ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ صرف ایک ہی صورت کا تحقق ہوگا کہ سب کے حسنات ہی غالب ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ نصوص سے ہر عمل کے شرعا معتبر ہونے میں ارادہ ونیت کا شرط ہونا معلوم ہورہا ہے، حدیث میں ہے اِنَّمَا الاعْمَال بِالنِّیَّاتِ اس کا مقتضی بھی یہی ہے کہ ترک اصلی عبادت نہ ہو کیونکہ اس میں نیت وارادہ نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترک اصلی نعمت بھی نہیں وہ انعامِ حق ضرور ہے اس وقت حق تعالی نے ہم کو ہزاروں گناہوں سے بچا رکھا ہے گو ہم نے بچنے کا ارادہ نہیں کیا مگر بے ارادہ کے بھی گناہوں سے محفوظ رہنا اس کے نعمت ہونے میں شک نہیں اور اس نعمت کا ہم کو شکریہ ادا