فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
درخت امرود کا بھی ہے، ایک دو ناشپاتی کے بھی ہیں ، مگر یہ بتاؤ کہ اس کو کس چیز کا باغ کہا جائے گا، یقیناً جس پھل کا غلبہ ہوگا اور جو پھل زیادہ ہوگا اسی کا باغ کہلائے گا، اگر آم زیادہ ہیں تو اس کو آم کا باغ کہیں گے، ایک امرود کے درخت سے اس کو امرود کا باغ کوئی نہ کہے گا۔ اسی طرح یہاں سمجھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات تو بہت ہیں ہر قسم کے واقعات آپ کو احادیث میں مل جائیں گے مگر اس سے آپ کا طرز ثابت نہیں ہوسکتا آپ کی طرز و عادت وہ ہے جو غالب ومستمر ہو، پس غالب حالت اور دائمی حالت کو دیکھو اور اس کا اتباع کرو، یہ اتباع حقیقی ہوگا ،اتفاقی واقعات کے اتباع کا نام ابتاعِ سنت نہیں ، پھر علماء کو تو علم سے اس کا پتہ چلے گا کہ غالب حالت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تھی اور عوام کو چاہئے کہ کتب واقعات وسیرت کا مطالعہ کرکے دیکھیں کہ غالب واقعات کس قسم کے ہیں ، جو غالب عادت ہو اس کو اصل قرار دو اور دوسرے کو عارض پر محمول کرو۔عادت غالبہ کے معلوم ہونے کے دو طریقے کثرت عمل اور غلبہ مقصودیت مگر یہاں ایک بات اہل علم کے سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بعض دفعہ صورۃً عمل قلیل ہوتا ہے مگر معناً کثیر و غالب ہوتا ہے، جیسے تراویح میں عمل تین رات ہوا ہے اور خشیتِ افتراض کی وجہ سے ترک زیادہ ہوا لیکن یہ ترک عارض سے تھا اور عمل اصل، پس اسی کوراجح کہیں گے اور تراویح کو سنت کہیں گے۔ یہاں سے غیر مقلدوں کا جواب ہوگیا جو کہ تراویح کی آٹھ رکعت پڑھتے ہیں اور بیس کو یہ دعویٰ کرکے بدعت کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس نہیں پڑھیں