فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
أبہِمُوا مَا أبہمہ اﷲ اللہ نے جن امور کو مبہم رکھا ہے ان کو مبہم ہی رکھو ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن مجید کے ایصالِ ثواب میں سب کو برابر ثواب ملے گا یا سب پر تقسیم ہوگا؟ فرمایا: عقائد مبہمہ میں جازم (یقینی وتعیینی ) جواب دینا ضروری نہیں اس میں صحابہ کرام کا طرز نہایت اچھا تھا کہ مبہم کا عقیدہ مبہم رکھتے تھے، شریعت نے اس میں تفصیل بیان کرنے کو ضروری نہ سمجھا۔ (اسی طرح) نماز، روزہ، اور وضو دونوں نص کی تصریح کے مطابق مکفر سیئات ہیں ، باقی ہم کو اس سے بحث نہیں کہ کس قدر کس سے کفارہ ہوتا ہے یہ نصوص میں مبہم ہے تم بھی مبہم ہی رکھو، محض ظن کی بناء پر خاص تعیین کے در پے نہ ہو، یہ تو وہ پوچھے جس کو نعوذ باللہ اللہ میاں سے مطالبہ کرنے کا ارادہ ہو،عقائد میں ظن کا دخل نہیں البتہ فقہیات میں ہے کیونکہ فقہ میں عمل کی ضرورت ہے اور عقائد میں کون سی گاڑی اٹکی ہے، اس کو طالب علم یاد رکھیں ۔۱؎دو قرائتیں بمنزلہ دو آیتوں کے ہیں اس قاعدہ کی تشریح دو قرائتیں بمنزلہ دو آیتوں کے ہیں ہر ایک کا مفہوم ثابت کرنا لازم ہے اور ایک آیت میں دو قرائتوں کو ایک ساتھ عمل میں جمع کرنا فقہاء کے عمل سے ثابت ہے۔ چنانچہ حتی یطہرنمیں فقہاء نے دونوں قرائتوں کو جمع کرکے احکام مستنبط کئے ہیں اسی طرح وَأرْجُلَکُمْ إلٰی الْکَعْبَیْنمیں دونوں قرائتوں کو جمع کیا ہے کہ دونوں کے مجموع کا مطلب یہ ہوا کہ پیروں کو مَل مَل کر دھویا کرو کیونکہ ان پر پانی ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص ۳۳۵