فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
فصل۴ علم اعتبار کا بیان علم اعتبار اور قیاس صوری کی حقیقت علم اعتبار یہ ہے کہ دوسرے کے قصہ کو اپنی حالت پر منطبق کرکے سبق حاصل کیا جائے، دو چیزوں میں مشابہت ہوتو ایک نظیر سے دوسری نظیر کا استحضار کیا جائے، اور یہی عبرت حاصل کرنے کے معنی ہیں کہ دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر منطبق کیا جائے۔۱؎ علم اعتبار کی حقیقت یہ ہے کہ مشبہ کو دوسرے مشبہ بہ سے واضح کیا جائے، ثابت نہ کیا جائے بلکہ مشبہ دلیل آخر سے ثابت ہے اور یہ مجاز میں داخل ہے، خواہ مجاز مرسل ہو خواہ استعارہ، کیونکہ مجاز میں موضوع لہ کے مراد نہ ہونے پر قرینہ ہوتا ہے اس لئے غیر موضوع لہ مراد ہوتا ہے اور نہ کنایہ میں داخل ہے کیونکہ کنایہ میں معنی موضوع لہ متروک نہیں ہوتے بلکہ کلام کا مدلول اصلی وہی موضوع لہ ہوتا، مگر مقصوداس کا لازم یا ملزوم ہوتا ہے جیسے طَوِیْلُ النَّجاد کہ اس میں مدلول وضعی متروک نہیں ، مدلول کلام وہی ہے مگر مقصود طَوِیْلُ الْقَامَۃِ ہے، کیونکہ طویل النجاد کے لئے طویل القامۃ لازم ہے اور اعتبار میں وہ معنی نہ مقصود ہے نہ مدلول کلام ہے، پس یہ اعتبار گویا قیاس تصرفی ہے اورمشابہ ہے قیاس فقہی کے مگر عین قیاس فقہی نہیں کیونکہ قیاس فقہی میں علت جامعہ مؤثر ہے حکم مقیس میں اس لیے وہ حکم منسوب الی القیاس ہوتا ہے یہاں یہ بھی نہیں ، صرف مقیس مقیس علیہ میں تشابہ ہے اور مشابہت کو حکم میں کوئی اثر نہیں ، بلکہ وہ حکم خود مستقل دلیل سے ثابت ہے یہ حقیقت ہے علم اعتبار کی ۔ ------------------------------ ۱؎ البدائع ص ۲۴۱