فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ایک اہم قاعدہ فقہیہ اور اس پر چند تفریعات حدیث شریف میں کثرت ِ کلام کی ممانعت آئی ہے چنانچہ بروایت ترمذی ارشاد ہے فان کثرۃ الکلام بغیر ذکراللہ قسوۃ القلب اور گوعموماً کلام کی تین قسمیں سمجھی جاتی ہیں ،مضر، نافع ، اور عبث ، یعنی نہ نافع ہو نہ مضر ،لیکن میرے نزدیک یہ تقسیم ثلاثی محض ظاہری ہے اور حقیقی تقسیم فقط تقسیم ثنائی ہے یعنی نافع اور مضر کیونکہ اگر عبث کو بھی غور کرکے دیکھا جائے وہ بھی مضر ہی میں داخل ہے گوواقع میں ایک درجہ کلام کا وہ بھی ہے کہ نہ نافع ہو نہ مضر، لیکن تجربہ سے وہ کلام اس درجہ تک رہتا نہیں ،جیسے کوئی افیون کھانا شروع کرے تو وہ اعتدال پر رہتی ہی نہیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے کیونکہ نفس اندر سے فتویٰ دیتا رہتا ہے کہ اگر تھوڑی سی اور کھائی جائے توکیاحرج ہے، کیونکہ وہ پہلی مقدار کے قریب ہی قریب ہے حالانکہ یہ مقدمہ کہ : قریب کا قریب ہوتا ہے، غلط ہے، ورنہ پھر تومشرق مغرب بھی قریب ہوجائیں گے۔ پھرفرمایا کہ اس قاعدہ کو پیش نظررکھ کر بہت سی حدیثیں حل ہوجاتی ہیں ،چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ کوئی سیاہ فام لڑکی خواہ حبشن ہو یارنگ ہی ایسا ہو،جوجاریہ کے اطلاق سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ وہ نابالغ تھی، آپ کے حضورمیں دف پر کچھ گارہی تھی اتنے میں حضرت ابوبکرپھر حضرت علی پھر حضرت عثمان آگے پیچھے داخل ہوئے اور وہ اسی طرح گاتی بجاتی رہی ،پھر حضرت عمر آگئے تو اس نے دف کو چھپا دیا اورچپ ہوگئی اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر شیطان تم سے ڈرتا ہے ۔ یہاں محققین نے اس اشکال کے جواب میں کہ اگر وہ فعل مباح تھا تو اس کو شیطانی اثر کیوں بتلایا گیا ؟ اور اگر مباح نہ تھا تو اس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے جائز رکھا؟( اس سوال کے جواب میں محققین نے )یہی کہا ہے کہ وہ ایک حد تک جائز تھا اس حد سے آگے منکر تھا، سو جس وقت تک حضرت عمررضی اللہ عنہ تشریف نہیں لائے تھے اس وقت