فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اس خیال کی نظیر وہ ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں إنِّیْ لاُجَہِّزُ جَیشِیْ وَأنَا فِیْ الصَّلٰوۃ،کہ میں نماز میں لشکر کا انتظام کرتا ہوں وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ بھی دین کا کام تھا اور ضروری تھا اور ذکراﷲ وماوالاہ میں داخل تھا اور کثرت مشاغل کی وجہ سے خارج نماز اوقات بعض دفعہ اس کے لئے کافی نہ ہوتے تھے، اور نماز میں یکسوئی ہوتی ہے اور تدبیر وانتظام کا کام یکسوئی کا محتاج تھا، اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں بضرورت باذن حق یہ کام کر لیتے تھے، اور اس لئے خلوت وخشوع کے منافی نہ تھا۔۱؎ سوال: اگر نماز اس غرض سے پڑھتا ہے کہ ناواقف آدمی میری نماز کو دیکھ کر اپنی نماز درست کرلے ایسی طاعت کا قصد نماز میں مخل اخلاص ہے یا نہیں ؟ الجواب: اس میں خود نماز سے مقصود غیر نماز ہے اس میں بظاہر خلاف اخلاص ہونے کا شبہ ہوسکتا ہے مگر میرے ذوق میں اس میں تفصیل ہے وہ یہ کہ شارع کے لئے تو یہ خلاف اخلاص نہیں وہ اس صورت میں تبلیغ کے مامور ہیں اور غیر شارع کے لئے ماموربہ نماز میں خلاف احتیاط ہے،اور خاص تعلیم کے لئے مستقل نماز (ادا کرنے) کا حرج نہیں ۔ ۲؎طاعت مقصودہ کو دنیوی اغراض کا ذریعہ بنانا سوال نمبر۳۷۸: وتر نماز میں سورۂ قدر وکافرون واخلاص بواسیر مرض کے واسطے مجرب بتلاتے ہیں اگر اس کو التزام کے ساتھ پڑھا جائے تو کوئی قباحت تو نہیں ؟ الجواب: اس میں منشاء سوال یہ ہے کہ طاعت مقصودہ کو ذریعہ بنایا گیا دنیوی غرض (حاصل کرنے) کا ، سو اس میں تفصیل یہ ہے کہ یہ ذریعہ بنانا دو قسم پر ہے، ایک بلا واسطہ جیسے عاملوں کا طریقہ ہے کہ ادعیہ کلمات سے خاص اغراض مقاصد دنیویہ ہی ہوتے ہیں ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ انفاس عیسٰی ۱؍ ۸۷ ۲؎ انفاس عیسٰی ۱؍ ۶۶۸ ۳؎ امدادالفتاویٰ