فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
تفقّہ فی الدین کی حقیقت (تفقّہ فِی الدِّین )تو اور چیز ہے، اگر وہ صرف الفاظ کا سمجھنا ہوتا تو کفار بھی تو الفاظ سمجھتے تھے، وہ بھی فقیہ ہوتے اور اہل خیر ہوتے، تفقہ فی الدین یہ ہے کہ الفاظ کے ساتھ دین کی حقیقت کی پوری معرفت ہو، سو ایسے لوگ حنفیہ میں بکثرت ہیں ۔۱؎فقہی کتابوں کے پڑھ لینے کا نام فقہ نہیں ہے کتابوں کے پڑھ لینے کا نام فقہ نہیں ، فقہ ایک نور ہے جو فقیہ کے دل میں آتا ہے اور اس نور کو حق تعالیٰ جب چاہیں سلب کرلیں وہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے، اب تم لاکھ کتابیں پڑھتے پڑھاتے رہو، مگر چونکہ دین کی سمجھ نہیں رہی تم فقیہ نہیں ہوسکتے اور وہ نورِ فقہ طاعات سے بڑھتا ہے اور معاصی سے سلب ہوجاتا ہے ، جو فقیہ مطیع اور متقی نہ ہو وہ کتابوں کا فقیہ ہے حقیقی فقیہ نہیں اور نہ اس کے واسطے وہ بشارت ہے جو فقیہ کے واسطے حدیث میں مذکور ہے اس لئے خاتمہ سے اطمینان کسی حال میں فقیہ کو بھی نہیں ہوسکتا۔ اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ فقہ دین کی سمجھ کانام ہے، تو اس میں کیا شبہ کہ فقیہ صوفی ضرور ہوگا، ہمارے فقہاء جتنے ہوئے ہیں سب صاحب نسبت اور صاحب معرفت تھے، نسبت اور معرفت کے بغیر دین کی سمجھ کامل نہیں ہوسکتی، ایسے ہی فقہاء کی شان میں فرمایا گیا ہے، فَقِیْہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مَنْ اَلْفِ عَابِدٍ،(مشکوٰۃ )کہ ایک فقیہ ہزار عابد وں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے، جس کو دین کی سمجھ ہوگی وہ شیطان کے فریبوں کو خوب سمجھے گا اور ایک چال بھی نہ چلنے دے گا، اور کورے عابد کو تو شیطان جس طرح چاہے پٹی پڑھا سکتا ہے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیزص ۴؍۳۸۷، ادب الاعتدال ملحقہ اصلاح باطن ص:۳۳۱ ۲؎ الحج المبرور ملحقہ التبلیغ ص ۴؍۱۳۸