فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
طرف کرے جن کا طرز عمل اور مذاق ہم کو معلوم ہے کہ وہ صاحب کشف تھے اور پیشین گوئی کیا کرتے تھے جیسے شیخ ابن عربی تو ہم تصدیق کریں گے کیونکہ اس صورت میں کوئی وجہ نہیں ہے اس کے جھٹلانے کی، پہلی صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ اگر راوی ثقہ ہے تو اس کے قول کی کوئی تاویل کریں گے کہ سمجھنے میں غلطی ہوئی یا دوسرے سے روایت کی ہوگی اور اس نے روایت میں احتیاط نہیں کی لیکن ان کا طرز عمل اور مذاق معلوم ہونے کے سبب اس کی تصدیق نہیں کریں گے کہ انہوں نے پیشین گوئی کی، غرض صحابہ مزاج شناس تھے اور صحبت پائی تھی، جیسا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سمجھ سکتے ہیں بعد کے لوگ نہیں سمجھ سکتے اس واسطے بعد کے لوگوں کو ضرورت ہے ان کے اتباع کی، اور ان کی رائے دین کے بار ہ میں بعد کے لوگوں کی رائے پر ضرور مقدم ہونا چاہئے۔۱؎صحابہ کے اجتہادی اختلاف کو رسول اللہﷺوسلم نے جائز رکھا حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم الاحزاب میں صحابہ سے فرمایا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ میں پہنچنے سے ادھر کو ئی نہ پڑھے اور بعض صحابہ کوراستہ میں عصر کا وقت آگیا تو باہم رائے مختلف ہوئی، بعض صحابہ نے تو کہا کہ ہم نماز نہ پڑھیں گے جب تک کہ ہم اس جگہ نہ پہنچ جائیں ، اور بعض نے کہا کہ نہیں ہم تو نماز پڑھیں گے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب نہیں بلکہ مقصود جلدی پہنچنے کی تاکید ہے کہ ایسی کوشش کرو کہ عصر سے قبل وہاں پہنچ جاؤ،پھر یہ قصہ آپ کے حضور میں ذکر کیا گیا، آپ نے کسی پر بھی ملامت وسرزنش نہیں فرمائی ۔۲؎ فائدہ: اس واقعہ میں بعض نے قوت اجتہادیہ سے اصلی غرض سمجھ کر جو کہ احدالوجہین المحتملین ہے نماز پڑھ لی مگر آپ نے ان پر یہ ملامت نہیں فرمائی کہ تم نے ظاہر لفطوں کے خلاف کیوں عمل کیا ؟اور ان کو بھی عمل بالحدیث کا تارک نہیں قرار دیا ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص:۵۰ ۲؎ بخاری ۲/۵۹۱ ۳؎ الاقتصاد فی بحث التقلید والاجتہاد ص۱۵