فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ان کا ترک کرنا ضروری ہے اور یہ توکل فرض وواجب ہے۔ اور اسباب یقینیہ جن پر وہ نفع عادۃً ضرور مرتب ہوجائے جیسے کھانے کے بعد آسودگی ہو جانا، پانی پینے کے بعد پیاس کم ہوجانا اس کا ترک کرنا جائز نہیں اور نہ یہ شرعاً توکل ہے اورلغۃً توکل کہا جائے تو یہ توکل ناجائز ہے۔ اور اسباب ظنیہ جن پر غالباً نفع مرتب ہوجائے مگر بارہا تخلف بھی ہوجاتا ہو، جیسے علاج کے بعد صحت ہوجانا ، یانوکری اور مزدوری کے بعد رزق ملنا، ان اسباب کا ترک کرنا جس کو عرفِ اہل طریقت میں اکثر توکل کہتے ہیں اس کے حکم میں تفصیل ہے وہ یہ ہے کہ ضعیف النفس کے لئے تو جائز نہیں اور قوی النفس کے لئے جائز ہے۔ بالخصوص جو شخص قوی النفس بھی ہو اور خدمت دین میں بھی مشغول ہو اس کے لئے مستحب بلکہ کسی قدر اس سے بھی مؤکد ہے۔۱؎تدبیر کے اقسام تدبیر میں دو مرتبہ ہیں ایک اس کا نافع ہونا، دوسرا اس کا جائز ہونا، سو نافعیت میں تو یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ تقدیر کے موافق ہوگی تو نافع ہوگی ورنہ نہیں ۔ اور اس کے جواز میں یہ تفصیل ہے کہ اس میں دو مرتبہ ہیں ایک مرتبہ اعتقاد یعنی اسباب کو مثل منکرینِ قدر کے مستقل بالتاثیر سمجھا جائے، سو یہ اعتقاد شرعاً حرام وباطل ہے ، البتہ تاثیر غیر مستقل کا اعتقاد رکھنا یہ مسلک اہل حق کا ہے۔ دوسرا مرتبہ عمل کا یعنی مقاصد کے لئے اسباب اختیار کئے جائیں سو اس کا حکم یہ ہے کہ اس مقصد کو دیکھنا چاہئے کیسا ہے سو اس میں تین احتمال ہیں یا وہ مقصد دینی ہے یا دنیوی، مباح ہے یا معصیت ہے، اگر معصیت ہے تواس کے لئے اسباب کا اختیار کرنا مطلقاً ناجائز ہے اور اگر وہ دین ہے تو دیکھنا چاہئے کہ وہ امر دین واجب ہے یا مستحب۔ ------------------------------ ۱؎ بوادرالنوادر ص ۶۶۷