فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اب بھی باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا، اگر اجتہاد فی الفروع بھی اب نہ ہوسکے تو شریعت کے نامکمل ہونے کا شبہ ہوگا جو کہ بالکل غلط ہے، شریعت میں کسی قسم کی کمی نہیں ، قیامت تک جس قدر صورتیں پیش آتی رہیں گی سب کا جواب ہر زمانہ کے علماء شریعت سے نکالتے رہیں گے کیونکہ یہ جزئیات اگر کتب فقہ میں نہیں تو اصول وقواعد تو سب پہلے مجتہدین بیان کرچکے، جن سے قیامت تک کے واقعات کا حکم معلوم ہوسکتا ہے، یہ ائمہ مجتہدین کا کمال تھا کہ حدیث وقرآن میں غور کرکے ایسے اصول وقواعد سمجھے جو قیامت تک کے جزئیات کے لئے کافی ہیں کوئی مسئلہ ایسا پیش نہیں آسکتا جس کا جواز وعدم جواز ان اصول سے نہ نکلتا ہو۔ بلکہ ان حضرات نے صرف اصول وقواعد پر اکتفا نہیں کیا جزئیات بھی اس قدر نکال کر بیان کرگئے ہیں کہ بہت ہی کم کوئی مسئلہ ایسا ہوتا ہے جس کو صراحۃ یا دلالۃ بیان نہ کر گئے ہوں ، اوراگر کوئی شاذ ونادر ایسا معلوم ہوتا ہے جو فقہاء نے بیان نہیں کیا تو کبھی مفتی کی نظر کی کوتاہی ہوتی ہے کہ اس کو سب مواقع پر عبور نہیں ہوا، یا فہم کی کمی ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ عبارت سے نکل سکتا ہے ، مگرمفتی صاحب کے سمجھ میں نہیں آیا۔۱؎اسلامی احکام وہی معتبر ہیں جو ائمہ مجتہدین علماء راسخین نے سمجھے اوربیان کئے ان کی مخالفت اللہ ورسول کی مخالفت ہے قرآن کلام شاہی ہے حق تعالی شانہ احکم الحاکمین کا کلام ہے اس کے سمجھنے کے لئے ہر ایک کی عقل کافی نہیں ، قرآن کے لئے ظہر وبطن ہے بعض بطون تو ایسے ہیں جن کو علماء ہی سمجھ سکتے ہیں ، عوام نہیں سمجھ سکتے، اور بعض بطون ایسے ہیں جن کو سب علماء بھی نہیں سمجھ سکتے بلکہ خاص خاص علماء ہی سمجھتے ہیں یعنی مجتہدین اوربعض کو مجتہدین بھی نہیں سمجھتے بلکہ انبیاء ہی سمجھتے ہیں اور وہ بھی وحی کے ذریعہ سے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ اشرف الجواب ۲؍ ۳۱۲ ۲؎ وعظ الجمعین بین النفعین ملحقہ موت وحیات ص ۲۷۵