فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
فقہاء نے تو اس واسطے علتیں نکالی تھیں کہ ایک حکم بہت جگہ متعدی ہوسکے اور اِنہوں نے اس واسطے نکالیں کہ کہیں حکم باقی نہ رہے، میں اسی وجہ سے حکمتیں بیان کرتے ہوئے ڈرتا ہوں ، لوگ انہیں کو مدار حکم سمجھ لیتے ہیں ۔ ہمیں اپنی حکمتوں کے متعلق یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہم انہیں حکم کا منشاء نہ سمجھیں بلکہ حکم کو ان کا منشاء سمجھیں ، کیا معنی؟ کہ حکم متضمن ہے بہت سی حکمتوں کو منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے ، تو اتنا فرق ہے ہماری اور فقہاء کی حکمتوں کی تخریج میں کہ ان کی حکمت منشاء ہے حکم کا، اور ہماری حکمت کا منشاء حکم ہے۔ (خلاصہ کے طور پر ) مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ حکم شرعی مصلحت پر مبنی نہیں ہے، (بلکہ) حکم شرعی پر خود یہ نکات مبنی اور اس کے تابع ہیں ، حکم شرعی کی وضع تو ایسی بناء پر ہے جس کا ہم کو علم بھی نہیں ہے، ہم کو تو اس قدر علم کا فی ہے کہ یہ حکم اللہ کا ہے جس کو اللہ کے رسول نے ہم تک پہنچایا، ہمارے لئے حکم کی بڑی بنا یہی ہے کہ خدا تعالی نے اس کو مقرر کیا ہے۔۱؎احکام شرعیہ کی علتیں بلا ضرورت عوام کے سامنے نہ بیان کرنا چاہئے فرمایا کہ احکام شرعیہ کی علت عوام کے سامنے ہرگز بیان نہیں کرنی چاہئے بلکہ ضوابط کی پابندی کرانی چاہئے ورنہ خطرہ کا قوی اندیشہ ہے، اس کی مثال یوں سمجھئے جیسا کہ صاحب کلکٹر نے ایک مجرم کو کسی دفعہ کی بناء پر سزا کا حکم کردیا اور فوراً اس کی تعمیل ہوگئی، مگر وہ مجرم اس دفعہ کی علت ہر گز دریافت نہیں کرسکتا اور جرأت کرکے دریافت بھی کرلے گا تو کلکٹر اس کو ڈانٹ دے گا کہ ہم نہیں جانتے بس قانون یہ ہے، اور اگرچہ ہم علت جانتے بھی ہیں مگر بتاتے نہیں (اور اگر اس کا شوق ہی ہو تو) سنو اس کے لئے تعلیم فن کی ضرورت ہے ، ہمارے پاس آکر ترتیب وارپڑھو پھر اپنے وقت پر جو امر سمجھنے کا ہے وہ سمجھ لیں بلکہ خود ہی (سمجھ میں ) آجائے گا، دریافت کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔ ------------------------------ ۱؎ روح الصیام ملحقہ برکات رمضان ص :۱۱۶، وغیرہ