فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سرتاپا مفسدہ ہی مفسدہ ہے اس کے ممنوع ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہوتا۔ بعض ایسے افعال ہیں جن میں کچھ مصلحت اور کچھ مفسدہ ہوتا ہے کسی کی نظر مصلحت پر ہوتی ہے اور مفسدہ کی طرف یاتو التفات نہیں ہوتا یااس کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے،یا اس میں کچھ تاویل کی گنجائش سمجھ لیتے ہیں ایسا شخص اس کو جائز بلکہ مستحسن کہتا ہے ۔ اور کسی کی نظر مفسدہ پر بھی ہوتی ہے خواہ مصلحت پر نظر ہی نہ ہو یا اس پر بھی نظر ہو، کیونکہ قاعدہ مقررہ ہے کہ جب حلت وحرمت کے اسباب کسی شئی میں جمع ہوجاتے ہیں تووہاں حرمت ہی کو ترجیح ہوتی ہے ،ایسے امورہمیشہ محل کلام واختلاف رہا کرتے ہیں ، مگر اس میں اختلاف رفع (یعنی ختم) کرنا،اگر اہل اختلاف میں قدرے طلب حق وانصاف ہو توبہت ہی سہل ہوتا ہے ،اس لئے کہ صرف یہ بات دیکھ لینے کی ہوتی ہے کہ آیا اس میں کوئی مفسدہ تونہیں ؟ اگر کوئی مفسدہ نہ نکلے تومانعین اپنا فتویٰ ممانعت کو چھوڑ دیں ، اور اگر مفسدہ نکل آئے تو مجوزین اپنے دعوئے جواز سے رجوع کریں گواس میں مصلحتیں بھی ہوں ، اس لئے اوپر مذکور ہوچکا ہے کہ تعارض کے وقت منع کو ترجیح ہوتی ہے، البتہ اگر کسی مامور بہ(واجب) میں کوئی مفسدہ ہو تووہاں مفسدہ کی اصلاح کردی جاتی ہے مگر مباح میں جب اصلاح دشوار ہو ،نفس فعل کو ترک کردینا لازم ہوتا ہے، بلکہ مباح تو کیا چیز ہے ،اگر سنت ِ زائدہ میں ایسے مفاسد کا احتمال قوی ہو اس کا ترک مطلوب ہوجاتا ہے ،یہ سب قواعد کتب شرعیہ اصولیہ وفرعیہ میں موجود ومذکور ہیں ۔مفسدہ کے ہونے نہ ہونے کی تحقیق کوئی مشکل کام نہیں مفسدہ کا ہونا نہ ہونا یہ کوئی دقیق بات نہیں جس میں بہت غور ونظر ومباحثہ کی حاجت ہو ،مشاہدہ وتجربہ وتتبع حالات ِعاملین ( یعنی عمل کرنے والوں کے حالات میں غوروتأمل )سے بسہولت معلوم ہوسکتا ہے ۔(مکتوب محبوب القلوب ملحقہ طریقۂ میلادشریف ص۳۰)