فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ہوسکتا بلکہ اتباع بعد علم معانی کے احکام کا ہوگا اس قرینہ سے معلوم ہوا کہ مراد تو علم معانی ہے مگر اس کو استماع سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ معانی کا سمجھنا اس پر موقوف ہے کہ اول الفاظ کو غور سے سناجائے، جو شخص تحصیلِ علم کے وقت معلم کی تقریر کو توجہ سے نہیں سنتا وہ مراد بھی نہیں سمجھ سکتا، اور جب یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ سے مراد علم معانی ہے تو اب یہ سمجھو کہ معانی قرآن کے بہت درجات ہیں ، بعض معانی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سمجھ سکتے ہیں غیر رسول نہیں سمجھ سکتا ان معانی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض احادیث میں بیان فرمایا ہے ، اور بعض معانی کو حضور کے بعد صرف مجتہدین ہی سمجھ سکتے ہیں ، جن معانی کو مجتہدین نے سمجھا ہے وہ فقہ کے باب میں مدوّن ہیں ، اور بعض معانی کو تمام اہل علم سمجھ لیتے ہیں اور بعض کو ترجمہ کے بعد عوام بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ اس تقریر سے معلوم ہوگیا کہ حدیث وفقہ بھی قرآن ہی ہے۱؎، بعض احکام تو بلا واسطہ اور بعض بواسطہ کلیات مدلولہ قرآن کے جن سے حجیت حدیث وفقہ کی ثابت ہے پس سب قرآن ہوا، مگر دوسرے لباس میں پس یوں کہنا چاہئے کہ ؎ عِبَارَاتُنَا شَتّٰی وَحُسْنُکَ وَاحِدٌ وَکُلٌّ اِلٰی ذٰلِکَ الْجَمَالِ یُشِیْرُمسائل اجتہاد یہ وقیاسیہ بھی معنیً قرآن ہیں اہل عرف کے نزدیک بتدل تشخص سے عین نہیں بدلتا پس حدیث وفقہ بھی قرآن ہی ہے گو لباس دوسرا ہے، اور فقہ میں جو مسائل منصوصہ قرآنیہ ہیں وہ تو قرآن ہیں ہی، مسائل قیاسیہ مستنبطہ من القرآن بھی قرآن ہی ہیں کیونکہ فقہاء فرماتے ہیں : القیاس مُظہِرٌ لا مُثبِتٌ کہ قیاس سے کوئی نئی بات ثابت نہیں ہوتی بلکہ قرآن و ------------------------------ ۱؎ قال الشیخ ولی اﷲ الدہلوی ’’لیعلم أن المعانی التی یشتمل علیہا القرآن لا تخرج عن خمسہ علوم، علم الأحکام کالواجب والمندوب والمباح والمکروہ والحرام سواء کانت من قسم العبادات أو المعاملات، أوالاجتماع اوالسیاسۃ المدنیۃ، ویرجع تفصیل ہذا العلم وشرحہ الی الفقیہ۔ (الفوز الکبیر ص:۱۹ معرّب)