فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
میں ہرکام کی مناسبت سے اختیار کئے جاسکتے ہیں جیسے اس زمانہ میں حج کے لئے ہوائی جہاز اور جہاد کے لئے ٹینک اور بم وغیرہ کا استعمال ہے کہ اس کو احداث فی الدین نہیں کہہ سکتے بلکہ احداث للدین کہا جائے گا، وہ جائز ہے۔ اسی طرح جمعیت خاطر اور قطع وساوس کے لئے ذکر میں جہر یا اشغال صوفیہ میں سے کوئی شغل اختیار کرنا بھی احداث فی الدین نہیں بلکہ احداث للدین ہے۔ کیونکہ عام احادیث سے ذکراللہ میں جہر کی ممانعت مستفاد ہوتی ہے، اور امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بھی یہی ہے ہمارے بزرگوں میں سب سے بڑے فقیہ اور محتاط بزرگ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جو ہمارے بزرگوں میں سب سے بڑے فقیہ اور محتاط تھے، ان کی تحقیق یہ ہے کہ ذکر اللہ میں جہر کوئی شخص افضل یا زیادتی ثواب کا موجب سمجھ کر کرے تو بدعت ہے، ہاں جمعیت خاطر اور قطع وساوس کی ایک تدبیر وعلاج کی حیثیت سے کرے تو مضائقہ نہیں ، اس کی مثال بعینہ یہ ہے کہ زکام میں گل بنفشہ پکاکرپینے کو اگر کوئی شخص عبادت اور ثواب سمجھنے لگے تو یہ بھی بدعت ہوجائے گا (کیونکہ احداث فی الدین ہوگا) اور علاج وتدبیر کے لئے کرے تو بدعت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔۱؎صوفیاء کے مجوزہ اذکار و اشغال بدعت کیوں نہیں ؟ صوفیائے کرام جو تدابیر سالکین طریق کے لیے تجویز کرتے ہیں وہ احکام نہیں ، جن کے نصوص قرآن و حدیث سے ثبوت تلاش کرنے کی ضرورت ہو بلکہ ایک انتظام اور معالجہ ہے اصلاح نفس کا اسی لیے وہ ہر شخص کے لیے اس کی طبیعت اور حالت کے مناسب جدا جدا ہوتا ہے، مثلاً کِبر کا حرام ہونا اور اس کا ازالۂ فرض ہونا یہ تو احکام ہیں ، جو قرآن و سنت میں منصوص ہیں ، اب ازالۂ کبر کے لیے مشائخ طریق مختلف قسم کی تدبیریں ہر ایک کے حال کے مناسب تجویز فرماتے ہیں کسی کو کہتے ہیں کہ تم نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کیا کرو، کسی کو کہتے ہیں کہ اپنی نالایقی کا اعلان کیا کرو۔ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص ۸۴