فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
منصوص نہ ہو اور افراط بھی عقیدے میں اس درجہ عوام نے کرلیا ہو کہ فرض وواجب سے زیادہ مؤکد قرار دیا ہو تواس حالت میں خواص کے لئے بھی کراہت کا حکم کیوں نہ کیاجائے گا ۔ (دوسری نظیر)دوسری نظیر یہ ہے کہ مغرب کی اذان واقامت کے درمیان دورکعت نفل پڑھنا حدیث سے ثابت ہے ،اور امام ابوحنیفہ ؒ اس کو مکروہ فرماتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی احتمال اعتقادِ سنیت مقصودہ(یعنی سنت مقصودہ ہونے کا اعتقاد) ہے ،اس احتمال کا موجبِ کراہت ہونا خود حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ اسی حدیث متنفل بین الاذان والاقامت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار میں ارشاد فرمایا ’’لمن شاء‘‘ جس کاجی چاہے پڑھے۔ اس کی وجہ راوی فرماتے ہیں کہ کراہۃ ان یتخذہ الناس سنۃ اور اس امر کے ناپسند کرنے کی وجہ سے کہ لوگ اس کو سنت بنالیں گے۔ (تیسری نظیر)تیسری نظیر یہ ہے کہ صلوٰۃِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے ،اور امام ابوحنیفہ ؒ اس کو منع فرماتے ہیں ،یہا ں بھی یہی وجہ ہے کہ نمازِ جنازہ اصل میں دعاء ہے، اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فاتحہ جو ثابت ہے وہ بھی بطریق دعاء ہے سواگر کوئی آیت علی وجہ الدعا (دعاکی نیت سے )پڑھی جاوے اس کو علی وجہ التلاوۃ (یعنی تلاوت وقرأت کی نیت سے )کسی نے پڑھ دیا تو کراہت آجاتی ہے ،پھر صرف اس شخص کو نہیں منع کیا بلکہ مطلقاً منع کردیا تاکہ یہ عادت شائع نہ ہو۔ اور بھی بے شمار اس کے نظائر فقہیہ موجود ہیں ، ان سب نظائر سے یہ امر کالشمس فی نصف النہار واضح ہوگیا کہ جس طرح اپنے عقیدہ ودین کی حفاظت ضروری ہے ،عوام کے عقیدے ودین کی حفاظت بھی ضروری ہے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ مکتوب محبوب القلوب ملحقہ طریقۂ میلادشریف ص۳۱