فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
جیسے نماز کی حالت میں ریا کا قصد تو نہیں اور نہ کسی فعل غیر طاعت کا قصد ہے، مگر نماز کی حالت میں قصدا کسی شرعی مسئلہ کا مطالعہ (غور وفکر) کرتا ہے یا کسی سفر طاعت کا نظام سوچتا ہے تو یہ اخلاص کے خلاف ہے یا نہیں ؟ الجواب: یہ مسئلہ دقیق ہے قواعد سے اس کے متعلق عرض کرتا ہوں اس وقت دو حدیثیں میری نظر میں ہیں ایک مرفوع جس میں یہ جزء ہے، صَلّٰی رَکَعْتَیْنِ مُقْبِلاً عَلَیْہَا بِقَلْبِہٖ اور دوسری موقوف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول جس میں یہ جزء ہے إنِّیْ لَاُجَہِّزُ جَیْشِیْ وَأنَا فِی الصَّلٰوۃِ، مجموعہ روایتین سے دو درجہ مفہوم ہوئے ایک یہ کہ جس طاعت میں مشغول ہے اس کے غیر کا قصداً استحضار بھی نہ ہو اگر چہ وہ بھی طاعت ہی ہو۔ دوسرا درجہ یہ کہ دوسری طاعت کا استحضار ہوجائے اور ان دونوں میں یہ امر مشترک ہے کہ اس دوسری طاعت کا اس طاعت سے قصد نہیں ہے مثلاً نماز پڑھنے سے یہ غرض نہیں ہے کہ نماز میں یکسوئی کے ساتھ تجہیز جیش کریں گے۔ پس حقیقت اخلاص تو دونوں میں یکساں ہے اس میں تشکیک نہیں البتہ عوارض کے سبب ان میں تفاوت ہوگیا اور درجہ اول اکمل اور دوسرا درجہ اگر بلا عذر ہے تو غیر اکمل ہے اور اگر عذر سے ہے تو وہ بھی اکمل ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ضرورت تھی۔ اور اس کا معیار اجتہاد ہے لیکن ہر حال میں اخلاص کے خلاف نہیں البتہ خشوع کے خلاف ہونا نہ ہونا نظری ہے میرے ذوق میں بصورت عذر یہ خلاف خشوع بھی نہیں اگر ضرورت ہو۔ (خلاصہ کلام یہ کہ) اگر ایسا خیال ہو جس کی اجازت محبوب کی طرف سے ہو یعنی دین کا خیال ہو اور ضرورت ہو تو وہ خلوص کے منافی نہیں ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ انفاس عیسی ص ۲۶۸ج۱