ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
اور بعد میں بھی قیامت کا ذکر ہے ۔ درمیان میں فرمایا : الا تحرک بہ لسانکہ لتعجل بہ " آپ اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے کہ جلدی کریں ۔ تو اب اس کا ربط تلاش کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تصنیفات کی طرز پر اتارتے ہیں ۔ حالانکہ یہ غلط ہے بلکہ اس کا طرز محاورہ پر ہے ۔ اس کی بعینہ مثال ایسی ہے کہ باپ کھانے کے وقت اپنے بیٹے سے کوئی تقریر کر رہا ہو اور بیٹا جلدی جلدی کھائے باپ تقریر کو درمیان میں چھوڑ کر بیٹے کو ڈانٹ دے گا کہ یہ کیا واہیات ہے ۔ جلدی جلدی مت کھاؤ ۔ اس کے بعد تقریر پھر شروع کر دے گا ۔ یہ انتظار نہ کرے گا کہ تقریر ختم کر کے روکے اور یہ غایت شفقت ہے ۔ اسی طرح یہاں حضورؐ نے جلدی جلدی پڑھنا شروع کیا تو اس کو روک دیا ۔ پھر وہ تقریر ( قیامت کا مضمون ) شروع کر دی ۔ یہ غالبا کشاف نے لکھا ہے ۔ میں اسی واسطے کہتا ہوں کہ صرف نحو کچھ ادب پڑھا کر قرآن شریف کا سادہ ترجمہ پڑھانا چاہیے ۔ کتب درسیہ کی تعلیم کے بعد اصطلاحات رچ جاتی ہیں ۔ پھر قرآن شریف کو بھی اس پر اتارتا ہے ۔ ہاں اس کے بعد فنون پڑھے کیونکہ بعض مواقع بدون فنون کے حل نہیں ہوتے ۔ مثلا سورہ انعام میں کفار کی نسبت ایک جگہ ارشاد فرمایا : لو شاء اللہ ما اشرکوا ۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے ،، اس میں یہ ارشاد ہے کہ ان کا شرک ہماری مشیت سے ہے ۔ اگر ہم ترک شرک کو چاہتے تو عدم اشراک ہوتا اور اسی سورۃ میں کفار کا قول نقل فرمایا : و لو شاء اللہ ما اشرکنا ، اور اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ۔ بظاہر ان دونوں قولوں میں تضاد ہے تو جواب یہ ہے کہ آیت اولی میں مشیت بمعنی ارادہ ہے ۔ یعنی تکوینی طور پر کسی مصلحت کی بنا پر ہم نے ان کے شرک کا ارادہ کیا ہے اور دلیل اس کی قرآن شریف کا سیاق و سباق ہے اس میں حضورؐ کی تسلی فرما رہے ہیں کہ تبلیغ کے بعد آپ مغموم نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے شرک کا ارادہ کیا ہوا ہے ۔ اور دوسری آیت میں مشیت بمعنی رضا ہے ۔ کیونکہ کفار کفر کے مرضی اور پسندیدہ ہونے پر دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ اور حق تعالی اس کا انکار فرما رہے ہیں ۔ اس دوسری آیت پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کا طرز مناظرانہ نہیں ۔ کیونکہ کفار کے قول پر دلیل کے طریق پر رد نہیں