ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
کیا کہ آ گے ایک جگہ پہنچے ایک جنگل میں وہاں ایک شخص تھا اس کے پاس ٹھہرے اس نے کہا کہ یہاں رات کو باہر نہ دیکھنا ۔ اس احاطہ کے اندر رہنا ۔ جب رات کا کچھ حصہ گزرا ہم نے جھانک کر دیکھا کہ سور رہی سور ہیں ۔ ہم بہت پریشان ہوئے اور ڈرے ۔ صبح کو ان بزرگ سے دریافت کیا کہ یہ کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ تم کو تو منع کیا تھا مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اوراح تھیں ان لوگوں کی جو مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے گئے ۔ تو معلوم ہوا کہ وہ متمثل ہو کر کبھی اس عالم میں بھی آ جاتی ہیں ۔ باقی اہل بدعت تو ان کو مستقل متصرف مانتے ہیں اور پھر استمرار کے ساتھ ۔ دوسری حکایت بہت عجیب ہے ۔ اور اس کے بعد سب راوی بجز میرے ثقات ہیں ۔ ( یہ لفظ ہنس کر فرمایا ) وہ حکایت یہ ہے اور راوی حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ ہیں اور انہوں نے اپنے والد مولانا مملوک علی صاحب سے سنی اور انہوں نے صاحب واقعہ سے سنی ۔ اور کچھ آثار اس کے خود مشاہدہ فرمائے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص تھے جن کا نام بیدار بخت تھا ۔ لوگ تو اس کو بیدا بخش کہتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔ اس کے چار بیٹے تھے وہ سید صاحب کے لشکر میں جہاد کیلئے گئے وہاں جا کر شہید ہو گئے ۔ بیدار بخت کو خبر ملی ۔ بہت پریشان ہوا ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ایک روز میں تہجد کے وقت اپنے مر دانہ مکان میں تھا کہ ایک آدمی نے کہا کہ سید صاحب ؒ اور مولانا شہید صاحبؒ اور ایک جماعت آ رہی ہے ۔ فرش بچھاؤ ۔ فرش بچھایا گیا اور یہ سب جماعت آ گئی ۔ وہ شخص بیدا بخت کہتا ہے کہ میں بہت حیران تھا کہ یہ خواب ہے یا بیداری ۔ میرا بیٹا جو شہید ہو گیا تھا وہ بھی آیا ۔ اس کے سر پر رومال بندھا ہوا تھا ۔ ذقن کے نیچے سے نکال کر سر پر بندھا ہوا تھا ۔ میں نے کہا کہ ایسا کیوں ؟ اس نے کہا کہ اس جگہ تلوار لگی ہے ۔ جس سے میں شہید ہوا ۔ پھر اس نے رومال کھولا اور نصف سر کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ زخم ہے ۔ باپ نے کہا کہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا باندھ لو ۔ اس نے باندھ لیا ۔ اس کے خون کے قطرے فرش پر گرے اور کہا کہ ہم سب شہید ہیں ۔ پھر چلے گئے ۔ بیدار بخت کہتا ہے کہ صبح ہوئی مجھ کو بے حد حیرانی ہوئی کہ یہ خواب تھا یا بیداری ۔ پھر فرش پر دیکھا تو خون کے قطرے بھی گرے ہوئے تھے ۔ مولانا مملوک علی صاحب نے فرمایا کہ میں نے خود بیدار بخت سے یہ واقعہ سنا اور دو قطرے خون کے دیکھے ۔