ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
کہ حق العبد میں صرف عبد کے معاف کرنے سے معافی نہ ہو گی ، بلکہ توبہ بھی کرے کیونکہ حق اللہ باقی ہے اور اس سے حدود کا کفارہ نہ ہونا بھی معلوم ہو گیا ۔ اور یہ اس حق میں ہے جو حقوق العباد ہوں کیونکہ حد تو حق العبد کیلئے ہو گی اور حق اللہ کے ضائع کرنے کی وجہ سے توبہ کرنی چاہیے اور پھر یہ نزاع لفظی ہو گا ۔ اور فرمایا کہ محض حقوق اللہ میں حدود کا کفارہ نہ ہونا اس میں بھی میری سمجھ میں نزاع لفظی ہے ۔ مگر پہلے ایک بات سمجھ لی جا ئے ( اور فرمایا یہ جو میں کہہ رہا ہوں نصوص کے خلاف نہیں ۔ اگر کسی نص کے خلاف ہو تو پھر یہ صحیح نہ ہو گا ) وہ بات یہ ہے کہ عادۃ کسی کو سزا دی جاتی ہے تو سزا کے بعد مالک اس کا بھی منتظر رہتا ہے کہ اب یہ زبانی بھی معافی چاہے گا ۔ صرف مالک کے سزا دینے سے مالک راضی نہیں ہوتا ۔ بلکہ سزا دینے کے بعد اگر وہ معافی نہ مانگے اور توبہ نہ کرے تو اور رنج بڑھتا ہے کہ یہ بہت متکبر ہے ۔ اسی واسطے مالک کی رضا کے واسطے ضروری ہے کہ بعد سزا اپنے جرم کا اقرار کرے اور معافی بھی چاہے اور چونکہ یہ سز فعل ہے مالک کا ( یہ سزا فعل مالک کا ہے ،، ۔ اقول ، اس سے مطلب حضرت شیخ کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدود کے بعد اگر حد کو معافی کامل خیال کیا جائے تو عذاب سے رہائی ہو گی ۔ اور عذاب کی رہائی کے بعد جہنم میں جائیگا نہیں ۔ تو اب جنت میں جائے گا ۔ تو یہ جنت میں جانا اگر بالفرض اور کوئی نیک کام سوائے ایمان کے نہیں کیا تو اس کو اور اس شخص کو برابر چاہیے ۔ جو صرف ایمان لایا تھا تو اس کو جو اس پر فضیلت ملی ہے تو اس نے کیا فعل کیا ہے ؟ سزا تو فعل حاکم کا ہے ۔ اس کا فعل توبہ ہونا چاہیے یا بلفظ دیگر یوں کہا جائے کہ حدود اگر کفارہ کامل ہے تو اس کیلئے رضائے حق لازم ہے اور رضائے حق کے ساتھ جنت لازم ہے ۔ اور جنت عادۃ معلق ہے کسی فعل پر تو حد میں تو سزا دینا فعل ہے مالک کا اور اس پر تو انعام آ نہیں سکتا ۔ تو معلوم ہوا کہ اس کو بھی کوئی فعل کرنا چاہیے ۔ اور وہ فعل اس کی طرف سے توبہ ہے ۔ اس واسطے حد میں توبہ بھی ضروری ہے ۔ ) اس کی طرف سے تو کوئی فعل نہیں ہوا اس لئے محض سزا کافی نہ ہو گی ۔ تو معلوم ہوا کہ حدود ، حقوق اللہ میں بھی کفارہ کامل نہیں ۔ اور یہی مراد ہے حنفیہ کی ۔ اور یہ اس آیت سے معلوم ہوا السارق والسارقۃ الخ آ گے فرمایا ۔ فمن تاب اور