ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
اور کثرت کام کے ذیل میں فرمایا کہ میں نے اس رمضان میں خلاف معمول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ کیونکہ اس وقت اس علاقہ میں کوئی شخص یہ کام ( اصلاح نفس ) کرنے والا نہیں ہے ۔ قریبا ڈیڑھ گھنٹہ سالکین کے خطوط کا جواب دیتا ہوں اور جواب بھی صرف علمی توجیہ سے نہیں دیتا بلکہ شرح صدر سے جواب دیتا ہوں ۔ اسی واسطے بعض لوگ یہ اقرار کرتے ہیں کہ جواب کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا آگ پر برف رکھ دی ۔ یہ تسلی اس واسطے ہوتی ہے کہ ادھر سے بھی پوری تسلی سے جواب دیا جاتا ہے ۔ جب تک تسلی نہیں ہوتی جواب نہیں دیتا ۔ بلکہ بعض دفعہ جب شرح صدر نہیں ہوتا پرچہ پاس رکھ لیتا ہوں ۔ اور بعض دفعہ کہہ دیتا ہوں کہ پرچہ کل پر ڈال دیا جائے ۔ چونکہ مجھے شفقت بہت ہے ۔ پوری دماغ سوزی کرتا ہوں ۔ اس واسطے تکلیف بھی بہت ہوتی ہے اور فرمایا یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : او ذیت فی اللہ مالم یؤذ احد ( مجھے اللہ ( کے دین کی تبلیغ کے بارے ) میں جتنی تکلیف اٹھانی پڑی اتنی کسی اور پر نہیں پڑی ) ۔ حالانکہ پہلے حضرات انبیاء علیہم السلام کو بظاہر تکالیف بہت ہوئی ہیں ۔ امتداد زمانہ کے لحاظ سے بھی اور ظاہری تکالیف کے لحاظ سے بھی ۔ مثلا حضرت نوحؑ کا زمانہ نو سو سال تکلیف میں گزرا ۔ بعض دفعہ ان کو کافر ہاتھ پاؤں باندھ کر چھوڑ آتے تھے ۔ اور ہمارے حضورؐ کے چالیس سال کے بعد نبوت اور تین سال فترت کے تو باقی تھوڑی مدت تکلیف کی رہتی ہے ۔ یعنی صرف بیس سال ۔ مگر حضورؐ کو شفقت بیحد تھی اور جس قدر شفقت زیادہ ہوتی ہے اسی قدر تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اسی کے ذٰیل میں فرمایا کہ ایک دفعہ گھر کے لوگ کچھ روز کے لئے کہیں چلے گئے تھے اور گھر میں جو مرغیاں پلی ہوئی تھیں ان کا صبح کو نکال دینا میں نے خود اپنے ذمہ لے لیا تھا ۔ ایک دن بھول گیا ۔ پرچہ سالکین لیکر جواب دینے لگا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ فورا یاد آیا کہ گھر مرغے بند ہیں پرچہ چھوڑ کر گیا ۔ جب کھول دیا تو فورا جواب سمجھ میں آ گیا ۔ حکیم صاحب نے سوال کیا کہ اضمحلال تو نہیں ؟ تو اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے اضمحلال تو مجھے کبھی نہیں ہوا ۔ حق تعالی کے انعامات کا ہر وقت مشاہدہ ہوتا ہے اور فرمایا ۔ اگر کسی کو حق تعالی سے تعلق ہو گو