ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
اور طاعت ماموربہ ہے اس واسطے یہ بھی رضا حق ہے ـ پھر ایک اہل علم نے دریافت کیا کہ بعض بزرگوں سے اور بعض حضرات انبیاء سے منقول ہے کہ انہوں نے مصیبت میں دعا نہیں کی ـ فرمایا کہ بعض لوگوں پر بعض حالات کا غلبہ ہوتا ہے اور ان حالات میں یہی مناسب ہے اور اس کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ دعا نہ کریں اور تحقیق یہ ہے کہ انسان میں دو چیزیں ہیں ایک عقل اور دوسرے طبیعت ـ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر حالت پر خوش رہے اور طبیعت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ تکلیف کو دور کیا جائے تو حق تعالی نے ہماری طبیعت کی رعایت فرمائی اور اجازت دے دی کہ تم دعا کرو تو دعا بھی ماموربہ ہوئی اس واسطے جائز ہے اور کوئی عقل کے مقتضی پر چلے اور دعا نہ کرے تو بھی جائز ہے اس واسطے بزرگوں سے دونوں حالتیں منقول ہیں اور فرمایا کہ ایک اور چیز ہے وہ اس سے بھی زیادہ دقیق ہے ( باریک ) اور کام کی چیز ہے اور وہ یہ ہے کہ حق تعالی کی شیون ( شانیں ) مختلف ہوتی ہیں ـ کسی شان کا مقتضا یہ ہوتا ہے کہ دعا نہ کرنی چاہیے ـ اس وقت عارف دعا نہیں کرتا ـ اور یہ عرفان حضرات انبیاء اور اولیاء کامل کو ہوتا ہے اوروں کو نہیں ـ اسی پر وہ عمل کرتے ہیں گویا کہ وہ بادشاہ کے مزاج شناس ہیں جیسے بادشاہ اپنے وزراء اور خواص کو کہتا ہے دیکھو اگر ہم خوش ہوں تو سلام کرو اور اگر ہم کو غصہ میں اور ملال میں دیکھو تو خبر دار مت سلام کرو تو مزاج شناس کبھی سلام کرے گا اور کبھی خاموش رہے گا ـ عوام کے لئے اور ضوابط ہوتے ہیں وہ ضابطہ کی پابندی کرتے ہیں ـ ان سے حکومت کا تعلق اور ہوتا ہے ـ جامع عرض کرتا ہے کہ صورت اول باعث عبدیت ہے اور صورت ثانیہ میں حق تعالی کی طرف ضابطہ کی طاعت ہے ـ اسی بناء پر صلوۃ کسوف میں حضورؐ نے متعدد رکوع فرمائے کہ شان کا تقاضا تھا کہ رکوع کرو ـ حضورؐ نے اس وقت رکوع کیا ـ اور جب یہ تقاضا تھا کہ قیام کرو تو قیام کیا اور حضورؐ چونکہ شیون کے عالم اور مزاج شناس تھے اس واسطے آپ نے ایسا کیا ار متعدد رکوع کئے ـ اور باقی لوگوں کو ضابطہ کی نماز کا حکم دیا ـ یہ توجیہ مولانا محمد یعقوبؒ نے کی ہے ـ عارف کے حالات شیون کے لحاظ سے متغیر ہوتے رہتے ہیں ـ