ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
میری رائے غلط تھی ـ در حقیقت علم اور ہی چیز ہے کہ لباس وغیرہ کو اس میں دخل نہیں ـ مجھے ان دونوں باتوں کا پتہ چلا تو میں نے دوسرے وقت کے بیان میں وعظ کو روک کر یہ کہا کہ لوگوں کو ہمارے متعلق کچھ شکایت ہے ـ اول شاہ صاحب کی تقریر کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ بہت مغلق تھی ـ تو آپ لوگ اس سے یہ نہ سمجھیں کہ علماء کو سہل بیانی پر قدرت نہیں اور نہ یہ سمجھا جائے کہ جب کوئی سمجھا ہی نہیں تو فائدہ کیا ہوا ؟ بلکہ اخلاق میں بھی حکمتیں اور فوائد ہیں ـ ایک حکمت یہ ہے کہ تم کو اپنی حیثیت معلوم ہو جاوے کہ ایک عالم کی تقریر سمجھنے کی بھی قدرت نہیں کیونکہ آجکل ہر شخص مجتہد بننے کا مدعی ہے ـ بس قرآن مجید کا ترجمہ دیکھ لیا اور چار سائنس کے رسالے پڑھ لئے اور اپنے آپ کو عالم سمجھنے لگے ـ توکل کی تقریر سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ آپ ایک عالم کی تقریر سمجھنے کی بھی استعداد نہیں رکھتے ـ اور اس میں کتنی اصلاح اور نفع ہے ـ چاروں طرف سے آواز آئی کہ " ٹھیک ہے ٹھیک ہے ،، ـ دوسرا اعتراض مجھ پر ہے وہ یہ کہ اس کا لباس قیمتی نہیں وعظ میں اثر کیا ہو گا ـ سو ہم نے اس سے پہلے تو کہیں یہ بات سنی نہیں تھی کہ وعظ کہنے کیلئے قیمتی لباس کی ضرورت ہے یہیں آ کر سنی ہے ـ تو بات یہ ہے کہ ہم لوگ علم حاصل کر کے کسی بڑے منصب پر تو پہنچنے کی ہوس نہیں رکھتے کہ قیمتی لباس بنا سکیں یہی ہے کہ کسی مدرسہ میں مدرس ہو گئے یا کسی مطبع میں مصحح ـ تو اس میں اتنی آمدنی کہاں کہ قیمتی لباس بنایا جا سکے ـ اس لئے ہم تو اس سے یوں معذور ہیں یہاں آ کر معلوم ہوا کہ جب تک لباس قیمتی نہ ہو وعظ کا اثر نہیں ہوتا ـ لہذا معترض صاحب دو دو سو روپیہ کا جبہ بنوا کر جلدی ہم کو پہنچائیں تا کہ ہم وعظ کہیں ـ اور اگر ان کو یہ اشکال ہو کہ پھر تو جس کو وعظ کیلئے بلائیں گے اس کو ایک عباء بھی تیار کرا کے دینا پڑے گی اور یہ بہت مشکل ہے تو جب اعتراض کرو گے پھر دینا پڑے گا مگر ہم یہ احساس کریں گے کہ اس عباء کو وعظ کہنے کے بعد یہیں چھوڑ جائیں گے تا کہ جو شخص وعظ کہنے کیلئے آئے وہ اس کو پہن کر وعظ کہہ دیا کرے اور پھر اتار کر رکھ دیا کرے اگر کسی دوسری جگہ اسی قسم کا اعتراض ہوا تو وہاں بھی یہی کہیں گے اب میں منتظر ہوں کہ معترض صاحب کی طرف سے ہمیں جلدی عبا پہنچے ـ اگر اس کے بعد بھی نہ پہنچی تو پھر اسے ڈوب مرنا چاہیے ـ اسی وعظ میں میں نے یہ بھی کہا کہ