فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
دشوار ہوتا، فقہا قعر دریا میں پھنسے اور خشک نکل آئے،یعنی انہوں نے دیکھا کہ سفر اور قصر میں کیا تعلق ہے؟ معلوم ہوا کہ چونکہ سفر میں مشقت ہے اس لئے قصر کا ہونا مصلحت ہے، دیکھئے یہاں یہ دریا میں گرے مگر دامن تر نہیں ہوا۔ یہاں سخت غلطی کا موقع یہ تھا کہ جب سفر میں مشقت نہ ہوتو قصر بھی نہ ہو، اگر آج کل کے سفہاء ہوتے، واقعی ایسا کرتے پھر اس سے جو تشویش وخلجان ہوتا ظاہر ہے، (کیونکہ) مشقت ایسا امر خفی اور غامض تھا کہ اس کی تشخیص ہی میں اکثر تردد رہتا، مگر وہ تو فقہاء ہیں ، دریا میں ہیں اور دامن بچاکر الگ ہوگئے (اور انہوں نے یہ سمجھا) کہ گو علتِ قصر مشقت ہے مگر اس کا قائم مقام اس کے سبب (یعنی سفر ) کو سمجھ لیا، اب سفر شرعی (اصل) ہے کہ اگر مشقت نہ بھی ہو تو بھی قصر کرنا پڑے گا جیسا کہ آج کل ریل کی وجہ سے کسی کو بھی مشقت نہیں رہی،سبحان اللہ کیا فہم تھا ،اگریہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتے تو مخصوصین ومقربین میں سے ہوتے۔ حضرت مولانا محمدیعقوب صاحب سے میں نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص کرامت سے کلکتہ پہنچ جائے تو قصر ہوگا یا نہیں ؟ فرمایا ہوگا کیونکہ وہ مسافتِ قصر پر پہنچ گیا ہے گو مشقت نہ ہو، اسی فہم کی بدولت کہیں شرائع میں خلل نہیں ہونے پاتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیوں کر معلوم ہوا کہ جو کچھ ان حضرات نے سمجھا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصود کے خلاف نہیں ؟ اس کی تحقیق نقلی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام (قصر) کا مدار مسیر سفر (یعنی سفر کی مسافت ) ہی کو جا بجا فرمایا ہے۔ اور عقلی تحقیق یہ ہے کہ فقہاء یہ سمجھے کہ اس حکم کی اصل حکمت تیسیر (آسانی) ہے پس اگر حکم کا مدار مشقت حقیقۃً ہوگی تو تعسر (دشواری) ہوجائے گی، کیونکہ یہ معلوم کرنا بڑا دشوار ہوگا کہ ہمیں اس درجہ کی مشقت ہوئی کہ قصر کریں یا نہیں ہوئی کہ نہ کریں ، پس حقیقۃ مشقت کو مدار سمجھنے کی صور ت میں اصل موضوع ہی فوت ہوجائے گا یعنی یسر (آسانی)۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ روح الصیام ملحقہ برکات رمضان ص ۱۱۶