فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
واجب ہے، امام صاحب فرماتے ہیں صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کے رہنے والے تھے، مزاج داں تھے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اشارات کو سمجھتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقالات کو سنتے تھے اور ان پر عمل کے مواقع کو جانتے تھے، وہ زیادہ سمجھ سکتے ہیں کہ کس موقع پر وہ مقالہ وجوب کے لیے تھا اور کس موقع پر اباحت کے لیے، ان کے ذہن میں مقالات بھی ہیں اور مقامات بھی اور ہمارے پاس صرف مقالات ہیں ، تو ظاہر ہے کہ ان ہی کی رائے اغراض شارع کے زیادہ مطابق ہوسکتی ہے تو اس صورت میں حدیث موقوف جس کی نسبت صرف صحابی کی طرف ہے وہ اقرب ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بہ نسبت ہماری رائے اور قیاس کے، دیکھئے کس قدر احتیاط کی ہے امام ابو حنیفہؒ نے اور کس درجہ اتباع کیا ہے وحی کا یہی وجہ ہے کہ ابو حنیفہؒ کے مذہب میں آثار بہت ہیں کیونکہ ان کو قیاس سے پہلے آثار کی تلاش کرنا پڑی ہے، وہ قیاس اس وقت کرتے ہیں جب کوئی حدیث موقوف یعنی اثر بھی نہ ملے، اور دیگر ائمہ اس کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتے، وہ حدیث موقوف پر قیاس کو راجح رکھتے ہیں ۔ اور امام صاحب کے مذاق کی تائید ایک فطری امر سے بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ طبعی بات ہے کہ مزاہیج شناسی اور مذاق شناسی کوبھی روایت کی تصحیح میں خاص دخل ہوتا ہے دیکھئے ہم کسی بزرگ کے پاس رہے ہوں اور ان کے مذاق سے آشنا ہوں پھر کوئی راوی ایک ایسی حالت بیان کرے جو ان کے مذاق اور وضع کے خلاف ہو تو ہم فوراً کہہ دیں گے کہ غلط ہے، مثلاً ہم کو معلوم ہے کہ وہ بزرگ پیشین گوئی نہیں کیا کرتے تھے اس سے قطعاً ان کو احتراز تھا مگر کوئی ثقہ راوی نقل کرتا ہے کہ انہوں نے یہ پیشین گوئی کی اور وہ سچ ہوئی تو گو اس سے ان کا کمال ثابت ہوتا ہے اور ہم بھی کمالات کے معتقد ہیں مگر ہم بے ساختہ کہہ دیں گے غلط ہے، انہوں نے کبھی پیشین گوئی نہیں کی ہم کو ان کا مذاق اور طرزِ عمل معلوم ہے کہ وہ اس سے بہت بچتے تھے اور اگر کوئی پیشین گوئی کی نسبت کسی ایسے بزرگ کی