فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
(خلاصہ یہ کہ)قرآن قانون الٰہی ہے اور علماء کا کام وہ ہے جو وکلاء کا کام ہوتا ہے کہ وکیل صرف یہ بتلاتا ہے کہ یہ امر قانون کے موافق ہے یا خلاف اس سے زیادہ وکیل کا کام کچھ نہیں ہوتا، مثلاً اس سے قانون کی علت پوچھی جائے۔۱؎ میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرتا ہوں ۔ دیکھئے! ’’قانون‘‘ وہ ہے جس کو پارلیمنٹ نے تجویز کیا ہے اور اس کے معنی (ومطلب) وہ (معتبر) ہیں جس کو جج سمجھتے ہیں کیونکہ آپ سے براہ راست تو خط وکتابت ہی نہیں کہ وہ خود آپ سے اس کے معنی بیان کرتے، پس جن لوگوں کو انہوں نے قانون فہمی کا اہل سمجھ کر عہدہ دیا ہے وہ جو معنی قانون کے بیان کریں گے اس کو ماننا پڑے گا کہ قانون کے اصل یہی معنی ہیں ۔ دیکھئے جب ایک ہائی کورٹ کا جج ایک فیصلہ دیتا ہے تو کیا اس وقت آپ کا یہ کہنا قابل قبول ہوگا کہ قانون کے یہ معنی نہیں جو تم نے سمجھے؟ ہر گز نہیں اور اگر ایسا کرے گا تو اس کو قانون کا مخالف قرار دیا جائے گا اور اس کے لئے جیل کی سزا تجویز کی جائے گی۔ دیکھئے ہائی کورٹ کے جج قانون کے سمجھنے والے تسلیم کرلئے گئے ہیں اور وہ قانون کے معنی بیان کریں گے اس کی مخالفت قانون ہی کی مخالفت قرار دی گئی ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے حکام ہر مقدمہ کا فیصلہ خود تو نہیں کرتے بلکہ وہ اصول کلیہ (قانون) بنادیتے ہیں اس لئے قانون کے سمجھنے والے ہائی کورٹ کے جج قرار دیئے گئے ہیں تو اگر چہ ہائی کورٹ کی مخالفت کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ میں پارلیمنٹ کے خلاف نہیں کرتا بلکہ جو یہ اس قانون کے معنی بیان کرتے ہیں اس کے خلاف کرتا ہوں مگر اس کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا، اور اس کو پارلیمنٹ کا مخالف سمجھا جائے گا۔ بس اسی طرح حضرات ائمہ مجتہدین چونکہ قرآن وحدیث کے سمجھنے والے مان لیے گئے ہیں ، اس لئے ان کی مخالفت خدا اور رسول کی مخالفت ہے۔ ------------------------------ ۱؎ غایۃ النجاۃ فی آیۃ النکاح ملحقہ حقوق الزوجین ص ۴۸۹