فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
جس میں رطب دیا بس نہیں ہیں ، نحو میں نہیں ہیں یا معقول اور فلسفہ میں نہیں یا طب میں نہیں ، ڈاکٹری میں نہیں محض اس خلط میں کس کس فن کو چھوڑدو گے، ہر فن میں مدار قول راجح اور مذہب جمہور اور روایت مفتیٰ بہا ہوا کرتا ہے اور امام کی روایت پر جو اعتماد کیا جاتا ہے اور بلا اس کے تشفی نہیں ہوتی اس کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ امام کے قول کو حدیث و قرآن سے زیادہ سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم کو اتنا علم نہیں جتنا ان فقہاء کو تھا، جنہوں نے فقہ کو مرتب کیا، نصوص سے جس فہم اور احتیاط کے ساتھ وہ مسائل کا استخراج کرسکتے تھے ہم نہیں کرسکتے، اس واسطے مسائل دریافت کرنے کے وقت امام کی روایت پوچھی جاتی ہے کہ انہو ں نے اس کے متعلق کیا تحقیق کی ہے اگر ان کی تحقیق ہماری تحقیق کے خلاف ہو تو اس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک طالب علم سے ایک مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اس کا جواب دے اور اسی کو ایک پرانے استاذ اور مدرس سے پوچھا جائے اور وہ جواب دے اور ان کی تحقیق اس طالب علم کے خلاف ہو تو کس کو ترجیح ہوگی، ظاہر ہے کہ استاذ کے فتوے کو ترجیح ہوگی۔ تو کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ جو معنی قرآن وحدیث کے تھے (جیسا کہ اس طالب علم نے سمجھا تھا) قرآن و حدیث کو چھوڑ کر استاذ کا اتباع کیا گیا؟ اور قرآن وحدیث سے استاد کو زیادہ سمجھا گیا؟ اور قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ان کا فتویٰ تلاش کیا جاتا ہے؟ نہیں بلکہ حقیقت اس کی یہ ہے کہ قرآن و حدیث ہی کے فتوے کی تلاش ہے اور اسی کے حکم کا اتباع کیا جاتا ہے مگر اس کا حکم طالب علم کے پاس صحیح نہیں ملتا ہے اس واسطے استاذ کے پاس حکم کو تلاش کیا جاتا ہے، یہ حقیقت ہے تقلید ائمہ کی۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص:۵۴ قال ابن القیم: فقہاء الاسلام ومن دارت الفتیا علیٰ اقوالھم بین الأنام الذین خصو باستنباط الأحکام وعنوبضبط قواعد الحلال والحرام فہم فی الأرض بمنزلۃ النجوم فی السماء بہم یہتدی الحیران فی الظلماء ،وحاجۃ الناس الیہم أعظم من حاجتہم الی الطعام والشراب، وطاعتہم أفرض علیہم من طاعۃ الامہات والآباء بنص الکتاب قال اللہ تعالیٰ یَاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْاَطِیْعُو اللّٰہَ وَاَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ الخ۔(اعلام الموقعین ص۹ج۱)