فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
لوگ ان میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ مقصود بالذات اصلاح قلب ہے جو فرض ہے ،اور یہ صورتیں مقصود بالعرض ہیں ، مقصود بالعرض میں تصرف کرنا جائز ہے ، مقصود بالذات میں تصرف نہ کرنا چاہئے اور مثال میں حج وجہاد اور توپ اور ریل وغیرہ کو پیش کرتے ہیں ،ماناکہ یہ تاویل ٹھیک ہے ، مگر جو لوگ یہ تاویل کرتے ہیں انہیں کا یہ خیال بھی ہے کہ مقصود بالعرض اور سنت زائد ہ کو اس طرح نہ اداکرو کہ جس سے اس کے علماًیا عملًا واجب ہونے کا شبہ ہو ، بلکہ جس وقت عوام کو یہ شبہ ہو تو خواص کو ان کا ترک کرنا واجب ہے۔ سنت زائدہ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ کبھی کرو کبھی نہ کروجس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صوم نفل کبھی رکھتے تھے کبھی نہیں رکھتے تھے ، بعد نماز کبھی داہنی طرف پھرجاتے تھے کبھی بائیں طرف ،غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قولاً یافعلاً یاتقریراً بتادیتے تھے کہ یہ فعل کس درجہ کا ہے ، آج کل کے مدارس اسلامیہ اور صوفیہ کے اذکار واشغال کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی ہرہر بات کو عملاً ضروری جانتے ہیں حالانکہ ان کو طرز عمل سے بتانا چاہئے کہ یہ مقصود بالعرض ہیں ۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سنت مؤکدہ کو بھی ضرورت کے وقت ترک کرنا واجب ہے ، مثلاً عوام کسی سنت مؤکدہ کے ساتھ واجب کا معاملہ کرتے ہیں تو خواص کو یہ سنت مؤکدہ ترک کرنا چاہئے ۔ مگر بہت سی باتوں میں ہم اس کے خلاف نظیر پاتے ہیں ،مثلاً رکوع کرنا فرض ہے ،اور رکوع میں سبحان ربی العظیم کہنا سنت ہے ،اب تمام جہان کے لوگ عملاً دونوں کو واجب وفرض بتاتے ہیں ، مگر قول وفعل وتقریررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو تو بھی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ عملاً دونوں ایک سی شان رکھتے ہیں گوعلماً ایسانہ ہو اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت بھی فرض وسنت میں عملاً فرق کرنا ضروری نہیں صرف علماً فرق کرنا کافی ہے ، اب یہ ارشاد ہونا چاہئے کہ فرائض وواجبات وسنن ونوافل وغیرہ میں علماً اور عملاً دونوں طرح فرق کرنے کی ضرورت ہے یا صرف علماً ، ان کے لئے کوئی قاعدہ کلیہ حدیث وفقہ سے مستنبط کیاگیا ہے یاعلماء کی رائے پر چھوڑ اگیا ہے ۔فقط