فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
واقعے میں آپ کی رائے کے خلاف حکم دیا، ایک تو وہ واقعہ ادخال حطیم فی البیت کا ہے کہ قریش نے تنگئی خرچ کی وجہ سے حطیم کو بیت اللہ سے خارج کردیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیت اللہ میں داخل کرنے کا ارادہ کیا مگر اس خیال سے ملتوی کردیا کہ اہل مکہ ابھی ابھی اسلام لائے ہیں اگر میں نے کعبہ کو منہدم کیا تو ان کو یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ کیسے نبی ہیں جو کعبہ کو منہدم کرکے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں تو ان کے اسلام میں ضعف پیدا ہوگا اس مقام پر تو حق تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مبارک کو باقی رکھا اوراس فعل کی جو کہ ملامت کاذریعہ ہے اس کے ارتکاب کی اجازت نہیں دی۔ دوسرا واقعہ جہاں ملامتِ خلق کی پرواہ نہیں کی گئی وہ واقعہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کا ہے جو خود کلام اللہ میں مذکور ہے۔ حضرت زید بن حارثہ نے ان کو طلاق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوا کہ زینب اور ان کے اولیاء کی دل جوئی کی اب صرف یہی ایک صورت ہے کہ میں ان سے نکاح کرلوں مگر آپ اس خیال سے رکتے تھے کہ زید بن حارثہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ(منہ بولے بیٹے) تھے متبنیٰ کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا جاتا ہے اگرمیں نے زینب سے نکاح کرلیا تو جہلاء مشرکین ومنافقین طعن کریں گے کہ بہو سے نکاح کرلیا اور اس طعن کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام سے رک جائیں گے تو دیکھئے زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کرنے میں بھی اس مفسدہ کا احتمال تھا جس کا قصۂ حطیم میں احتمال تھا، مگرحق تعالی نے یہاں مفسدہ کی پرواہ نہیں کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ حضرت زینب سے نکاح کرلیں اور (بدنامی و) طعن کی پرواہ نہ کریں ۔ ان دونوں واقعوں سے معلوم ہوا کہ ہر مفسدہ قابل اعتبار نہیں اور ہر مصلحت قابل تحصیل نہیں ، پس کسی مصلحت کے فوت ہونے یا کسی مفسدہ کے پیدا ہونے کے احتمال سے مباح ومستحب کو حرام کہنے کا ہر کسی کو حق نہیں ، اسی کو مولانا قاسم ؒنے فرمایا تھا کہ یہ سمجھنا حکیم کا کام ہے کہ کہاں پر خوف وملامت کی وجہ سے کسی فعل کو ترک کرنا