فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ہوتی ہو تو کیا ضرورت ہے کہ اس کو کیا ہی جائے۔ غرض ایسی بات کرنا جس سے عوام میں گڑبڑ ہوجائے (یعنی عوام فتنہ میں مبتلا ہوجائیں ) درست نہیں ، تو قاعدہ شرعی یہ ٹھہرا کہ جس مباح (جائز) سے اور جس مستحب سے عوام کسی دین کی خرابی میں پڑ جائیں وہ فعل خواص کے لئے بھی جائز نہیں رہتا حالانکہ وہ خود اس خرابی سے بچے ہوئے ہیں ، ایسے موقع پر خواص کو لازم ہے کہ وہ خود بھی ایسے مباح یا مندوب عمل کو بھی چھوڑ دیں ، جس سے عوام کی خرابی کا اندیشہ ہو۔ حقیقت میں یہ قاعدہ وہ پہلا ہی قاعدہ ہے کہ مصلحت اور مفسدہ جب جمع ہوجائیں تو مفسدہ کی ترجیح ہوتی ہے کیونکہ دوسرے شخص کا خرابی میں پڑ جانا یہ بھی تو مفسدہ ہے۔ جب یہ قاعدہ سمجھ میں آگیا تو اب سمجھئے کہ آپ کو وسعت ہے پانچ ہزار روپئے خرچ کرنے کی اور آپ کو خدانے علم بھی دیا ہے جس کی وجہ سے آپ کو نفس پر قدرت بھی ہے کہ آپ نے اپنے نفس کو ریاء سے، فخر سے، تکبر سے سب سے بچالیا شادی میں کوئی بے انتظامی بھی نہیں ہوئی، کوئی نماز بھی قضاء نہیں ہوئی بلکہ کوئی جماعت بھی فوت نہیں ہوئی۔ ہم نے ماناکہ آپ نے اپنے آپ کو ہرطرح کی برائی سے بچالیا مگر حضور یہ بھی تو دیکھئے کہ آپ کے عمل کا نتیجہ کیا ہوا؟ آپ کو دیکھ کر آپ کے وہ بھائی اور برادری کے لوگ جو آپ سے وسعت میں (مالداری میں ) اور علم میں کم ہیں مگر برابری کے دعوی میں بڑھے ہوئے ہیں وہ بھی شادی کو اسی طرح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم کیوں ان سے گھٹے رہیں ، آپ نے تو گھر سے پچاس ہزار نکال کر خرچ کر ڈالا، اور ان کے گھر میں (اتنے) روپئے کہاں ، انہوں نے جائداد گروی کرکے خرچ کیا، اب زمین گروی ہوئی ہے اس کی آمدنی گروی رکھنے والا کھا رہا ہے اور وہ سود ہے، اور وہ سود لینے