فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
تنقیص ممکن ہے امام ابو حنیفہؒ کو تجربہ ہوا ہو، اور اس خرابی کا ان کو مشاہدہ ہوا ہو، اور اُن کو (دوسرے ائمہ کو) نہ ہوا ہو، اس میں ان سے منازعت نہیں ہوسکتی، غرض امام صاحب کو عوام کی کیفیت کا مشاہدہ ہوا کہ بعض مستحب افعال بھی ان لوگوں کو شبہ میں ڈال دیتے ہیں ، چنانچہ اس معمول کے متعلق بھی امام صاحب نے سمجھا کہ جب کسی جمعہ میں بھی ناغہ نہ ہوا ور کبھی اس کے خلاف کرتے نہ دیکھیں گے تو سمجھیں گے کہ یہ عمل لازم اور واجب ہے، یہ تو اعتقادی خرابی ہوئی۔ دوسرے ممکن ہے کہ ایک اور بھی خرابی کا مشاہدہ ہو اہو، اور وہ عملی خرابی ہے وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ نماز میں مجمع بہت ہوجاتا ہے اور دور والوں کو سنائی نہیں دیتا کہ امام کونسی سورت پڑھ رہا ہے سنائی نہیں دیتا (اور اگر سنائی بھی دے لیکن عوام کو معلوم نہیں ہوتا) کہ امام نے سجدہ کی آیت پڑھی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امام نے تو سجدہ کیا اورمقتدی گئے رکوع میں اورامام اٹھا سجدے سے اور کہا اﷲ اکبر ، انہوں نے سمجھا سمع اللہ لمن حمدہ بڑی گڑ بڑ ہوجاتی ہے، چنانچہ مکہ معظمہ میں ایک دفعہ یہی گڑبڑی ہوئی، جمعہ کے دن ایک دفعہ شافعی امام نے فجر کی نماز میں معمول کے مطابق الم تنزیل سورۃ پڑھی (جس میں سجدہ کی آیت بھی ہے)انہوں نے سجدہ کی آیت پر پہنچ کر سجدہ تلاوت کیا اور اﷲ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلے گئے، اب جنہیں معلوم نہیں کہ یہ سجدہ تلاوت کیا ہے وہ سمجھے کہ امام نے رکوع کیا ہے وہ رکوع میں گئے، بڑی گڑبڑی ہوئی، کوئی رکوع میں ہے کوئی سجدہ میں ہے کسی نے نیت توڑدی، کوئی سمجھا کہ امام نے تین رکعتیں پڑھیں ، چنانچہ ایک شخص گھر لوٹ کر گیا اس نے کہا کہ شافعیوں نے تو قرآن کے بالکل خلاف عمل کیا، مغرب کی طرح فجر میں بھی تین رکعت پڑھتے ہیں ۔ تو آپ نے دیکھا کہ نوبت کہاں تک پہنچی، بس امام صاحب نے ایسے ہی واقعات دیکھ کر فرمایا کہ جو عمل واجب بھی نہیں اور عوام میں اس کے کرنے سے گڑبڑ