فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
طرف اس کو کیوں منسوب فرمایا، میری اس تقریر سے یہ اشکال حل ہوگیا ۔ بات یہ ہے کہ تھاتو یہ فعل مباح لیکن بوسائط اس کی کثرت مضرت ہے، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے تشریف لانے تک تو کثرت نہ تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے وقت آئے کہ اس وقت کثرت ہوگئی، شیطان کادخل ہوگیا اور اس کا وقت پہنچاکہ اس فعل سے شیطان اپناکچھ کام نکالے حتی کہ اگر حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی نہ آتے توخود حضور بھی اس وقت اس کو روک دیتے ،مگر پھربھی یوں نہ کہیں گے کہ اس حالت میں یہ فعل مباح نہیں رہا تھا، لیکن یہ مباح ایسا ہے کہ احیاناً واسطہ ہوجاتاہے کسی امر ناجائز کا، اب کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور یہاں سے اس حدیث کے معنی بھی سمجھ میں آگئے ہوں گے کہ ابغض المباحات طلاق ہے کیونکہ بنابرتقریر مذکور ممکن ہے کہ بعض چیزیں حلال اور مباح ہوں اور مضر ہوں ، مثلاًکسی نے طلاق دی تودیکھو طلاق مباح ہے لیکن ممکن ہے کہ وہ سبب ہوجائے دوخاندانوں کی باہمی کدورت کا، چنانچہ ایسا ہوتا بھی ہے اور نیز ممکن ہے کہ مرد کو بیوی کے ملنے میں دیرہواور وہ مبتلا ہوجائے حرام میں ، اسی طرح ممکن ہے کہ اس عورت کے اندر آوارگی آجائے ،اس لئے مباح بھی ہے اورابغض بھی ہے۔ بہرحال میرا مقصود یہ ہے کہ جولوگ مباحات میں کثرت رکھتے ہیں ان کوچاہئے کہ ذرا اپنے نفس کو روکیں گووہ امر مباح ہی ہو،کیونکہ مباح ہونے سے یہ توضروری نہیں کہ اس میں حد سے بڑھ جائے، دیکھو کھانا فی نفسہٖ مباح ہے لیکن دولقمہ اگر زیادہ کھائے جاویں گے تو تخمہ ہوجائے گا ،وہی نفیس غذا سبب ہوجاتی ہے تکلیف اور مرض کا اور اس واسطے چونکہ مباح کی کثرت باوجود مباح ہونے کے مورث قسادت اور منافی خشوع ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم جب مجلس سے اٹھتے تھے توپڑھتے تھے سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہدان لاالٰہ الاانت استغفرک واتوب